Monday 30 April 2012

اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے..


اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے 
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اُس بوڑھے شجر سے

مشکل ہے اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آ گئی ہوتے ہوئے سر سے ...

برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر میرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے

محنت میری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے

خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ‎ ‎میں
میں بھیڑ میں گم ہو گيا تنہائی کے ڈر سے

بے نام مسافت ہی مقدر ہےتو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے

پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے

نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہو گی
سورج بھی مگر آئے گا اسی راہ گزر سے