Wednesday 26 September 2012



قربان جاؤں اس کمبخت شخص کی ہاتھوں کی لکیروں پر
کہ اس نے تجھے مانگا بھی نہیں اور تو نے اسے اپنا بنا لیا


آ جائے میرا نام تیرے نام کے ہمراہ
ہو جائے کسی روز تو پہچان مکمل

کمرے سے باہر کا منظر
بادل بارش اور ہوا . . . . .

کمرے کے اندر کا موسم
آنکھیں، آنسو اور دعا. . . . !!

ہر موڑ پہ ملتے ہیں ہمدرد ہزاروں
لگتا ہے اس شہر میں اداکار بہت ہیں

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﻭﮦ ﺩﻥ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﻟﻮﺡِ ﺍﺯﻝ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﮐﮯ ﮐﻮﮦِ ﮔﺮﺍﮞ
ﺭﻭﺋﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﮨﻢ ﻣﺤﮑﻮﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﻠﮯ
ﺟﺐ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﺩﮬﮍ ﺩﮬﮍ ﮈﮬﮍﮐﮯ ﮔﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞِ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺍﻭﭘﺮ
ﺟﺐ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮍ ﮐﮍ ﮐﮍﮐﮯ ﮔﯽ
ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﺟﺐ ﺍﺭﺽِ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮐﻌﺒﮯ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﺑﺖ ﺍﭨﮭﻮﺍﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﺻﻔﺎ، ﻣﺮﺩﻭﺩِ ﺣﺮﻡ
ﻣﺴﻨﺪ ﭘﮧ ﺑﭩﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺳﺐ ﺗﺎﺝ ﺍﭼﮭﺎﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺳﺐ ﺗﺨﺖ ﮔﺮﺍﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﺑﺲ ﻧﺎﻡ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ
ﺟﻮ ﻏﺎﺋﺐ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﺑﮭﯽ
ﺟﻮ ﻧﺎﻇﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﮭﯽ
ﺍﺍﭨﮭﮯ ﮔﺎ ﺍﻧﺎ ﺍﻟﺤﻖ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ
ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺝ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺧﻠﻖ ﺧﺪﺍ
ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ
ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ گے

پھر تیرے خواب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
مہکے گلاب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
پھر دھڑکنوں میں شور اُٹھا تیرے نام کا
پھر اضطراب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
اے زندگی بتا تو مجھے تُو نے کس لیے؟
اتنے چناب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
میں نے تو بات کی تھی ستاروں کی، چاند کی
اُس نے سراب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
کیسے کہوں کہ تیری رفاقت نے جانِ جاں
کتنے عذاب ٹانک دیے ہیں پلک پلک
اُس نے کتابِ زیست سے مجھ کو نکال کر
فُرقت کے باب ٹانک دیے ہیں پلک پلک


-- بال جبریل سے --

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟
منزل رہرواں دور بھی، دشوار بھی ہے!
کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدر کرار بھی ہے؟
علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لیے
لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے!

پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سست بنیاد بھی ہے، آئینہ دیوا ر بھی ہے

-----اقبال ----

یہ حیرت ہے کہ تُم جیتے مگر ۔۔۔۔۔ ہو پھر بھی افسردہ
تُمہارا وار اَدھورا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ مِیری مات ادھُوری ہے ؟؟

اک تغافل سے اک توجہ تک
عشق آنسو بھی ہے تبسّم بھی

تو جب بھی میرے پاس نہ ہو
تہوار سزا ہو جاتے ہیں

آنے والی رُتوں کے آنچل میں
کوئی ساعت سعید کیا ہو گی
رات کے وقت رنگ کیا پہنوں
روشنی کی کلید کیا ہو گی
جبکہ بادل کی اوٹ لازم ہو
جانتی ہوں ،کہ دید کیا ہو گی

زردموسم کی خشک ٹہنی سے
کونپلوں کی اُمید کیا ہو گی
چاند کے پاس بھی سُنانے کو
اب کے کوئی نوید کیا ہو گی
گُل نہ ہو گا تو جشنِ خوشبو کیا
تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی

مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خُوش
اُنہیں عید کی سی خوشی ہوئی، رہے شام تک وہ سحر سے خُوش

اُنہیں بزم غیر میں تھا گماں کہ یہ سادہ لوح بہل گیا
مجھے خوف عزت و آبرو کہ رہا فقط اِسی ڈر سے خُوش

وہی دوست ہیں وہی آشنا، وہی آسماں ہے وہی زمیں
عجب اتفاقِ زمانہ ہے کہ بشر نہیں ہے بشر سے خُوش

مجھے چشم تر سے نہیں گِلہ، مرے دل کا داغ مٹا دیا
کہ لیا ہے نورِ بصر اگر تو کیا ہے لختِ جگر سے خُوش

یہ خوشا نصیب کہ یار نے مری موت غیر سے سُن تو لی
یہ اگرچہ جھوٹ اُڑائی تھی ، وہ ہوا تو ایسی خبر سے خُوش

وہ گلی ہو اور نطارہ ہو ، یہ نظر ہو اور اشارہ ہو
کبھی شاد جلوہء بام سے، کبھی سیر روزنِ در سے خُوش

دل و دیں لیا جو رقیب سے تو مبارک آپ کو یہ خُوشی
مجھے فائدہ، مجھے نفع کیا کہ جو ہوں پرائے ضرر سے خُوش

یہ خوشا نصیب کہ یار نے مری موت غیر سے سُن تو لی
یہ اگرچہ جھوٹ اُڑائی تھی ، وہ ہوا تو ایسی خبر سے خُوش
2

دن بھر خفا تھی مجھ سے مگر چاند رات کو
مہندی سے میرا نام لکھا اس نے ہاتھ پر..

تیرے ہجر میں یہ پتہ چلا
میری عمر کتنی دراز ہے
7

اُنہی کے ہاتھ میں ہے نبض ِ سکون شاید
قرار دیں بھی تو جیسے اُدھار دیتے ہیں

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
پہ کیا کریں ہمیں‌ اک دوسرے کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں‌ مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم
کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے

یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں
میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے
7

آنکھین دیکھتی رہ جاتی ھیں
سپنے دور نکل جاتے ھیں

زندگی یوں بھی بہت کم ہے محبت کے لیئے
روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے؟؟
6

رشتہ وہ شوق کا جو تھا، شوق کی نظر ہو گیا
اب کوئی بے وفا نہیں، اب کوئی باوفا نہیں.

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
تجھی پہ ختم ہے جاناں، مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں
4

پھر بہانے پرانے بناتے ہوئے
وہ جُدا ہو گیا مسکراتے ہوئے

کب تلک میں سہوں بے وفائی تری
کیوں جیوں خود کو ایسے مٹاتے ہوئے؟

خواب میں بھی مرے خواب کل رات کو
ڈر رہے تھے تری سمت جاتے ہوئے

تیری یادوں کا ریلا گزرتا رہا
سب خد و خال میرے مٹاتے ہوئے

کل کھڑی تھی جہاں آج بھی ہوں وہیں
تیری یادوں کی شمّعیں جلاتے ہوئے

تُو کہاں رہ گئی اے مری زندگی؟
تھک گئی پاس تجھ کو بلاتے ہوئے

ہجر کی دھوپ سے میں جھلستی رہی
وصل کی آس میں جاں گنواتے ہوئے
5

خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی
ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی

تیرے لئے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہو گا
میرے لئے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی

تیری صدا سے تجھی کو تراشنا ہو گا
ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی

ابھی تو تیری طبیعت کو جیتنے کے لئے
دل و نگاہ کی شرطیں بھی ہارنا ہوں گی

تیرے وصال کی خواہش کے تیز رنگوں سے
تیرے فراق کی صبحیں نکھارنا ہوں گی

یہ شاعری یہ کتابیں یہ آیتیں دل کی
نشانیاں یہ سبھی تجھہ پے وارنا ہوں گی
محسن نقوی
5

وہ مسکرا کے وسوسوں میں‌ڈال گیا
خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ھے
6

ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ کچھ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﮮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮭﻼﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ
4

اب میری تاک میں رھتے ھیں کوہ قاف کے جن
میں پرستان کی ملکہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھا لایا ھوں
7

کون جیتےگا ان سے باتوں میں
جن کی آنکھیں کلام کرتی ہیں
6

بارش کی بوندوں میں جھلکتی ہے اس کی تصویر
آج پھر بھیگ بیٹھا اسے پانے کی چاہ میں ........

غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے

مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے

خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے

گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
(عبد الحمید عدم

ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
____________
جون ایلیا


سوال یہ تھا کہ حسن یار کیسا ہے
جواب یہ ہے کہ ......... جواب نہیں
1

مسکراہٹ ، تبسم ، ہنسی ، قہقہے۔۔
سب کے سب کھو گیے ، ہم بڑے ہو گیے۔

میں تُجھ کو اب بُھلانا چاہتا ہوں
زندگی کو پھر آزمانا چاہتا ہوں
بہت بھیگ چُکا غم کی بارش میں
اب کوئی بس میں ٹھکانا چاہتا ہوں
بدنامیاں ہوئیں بہت میرا مقدر
تیرا نام دامن سے مٹانا چاہتا ہوں
تیری وارفتگی میں بُھول چُکا تھا جنکو
میں اُن رشتوں کو آزمانا چاہتا ہوں
جسکی راہ میں نہ آئے کوئی بھی سَراب
اُس منزل کو میں جانا چاہتا ہوں
سائے کے پیچھے دوڑتے اُکھڑ چُکیں سانسیں
ساگر دن سکُوں کے باقی بیتانا چاہتا ہوں...!

چہرے سجے سجے ہیں تو دل ہیں بجھے بجھے
ہر شخص میں تضاد ہے دن رات کی طرح......!

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اُف ۔ ۔وہ کتنے امیر ہوتے ہیں 

قیس و فرہاد کو لے بیٹھی ہے دنیا تابش
یہ نہیں سوچتی ہم نے بھی محبت کی ہے


وہ مل تو گیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا ہی مقدر
شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا


میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
اس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اس کا لہجہ شراب جیسا تھا
... اس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اس کا رخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خدوخال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زباں خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ھے ، کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُس کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ھے
یہ مگر دُور کا فسانہ ھے
اُس کے ، میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ھے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ھے
کیا خبر ، اِن دنوں وہ کیسا ھے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے