Friday 30 November 2012

تم ہارنے کا سوچ کے میداں میں آئے ہو 
اب میں بھی جیت جائوں ےو میری شکست ہے

پستوں میں ہم بلند ہُوئے بھی تو کیا ہُوئے
ہم سے بلند وہ جو بلندوں میں پست ہے

جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم تیرے بارے میں بہت سوچتے ہیں
نانا کوثر
سب کچھ خُدا سے مانگ لیا تُجھ کو مانگ کر
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مِرے ، اِس دُعا کے بعد
صبر کی منزلوں میں ہوں نالۂ نارسا نہیں!!
اُس کی دعا ہو مسترد جس کا کوئی خدا نہیں
میرے بغیر ہے ویران اب تیری جنت
زمین پر تجھے کس نے کہا اتار مجھے
کسی نے اہلِ ستم سے تو اک حرف نہ کہا
سبھی نے مجھ سے کہا، تُو ہی حوصلہ کرتا
ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفر
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
ترے درپہ جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے
(مصحفی)
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل کی بات کرنی ہے
تم غزل ہو غزال ہو کیا ہو ؟
دشت آباد ہوگیا میرا !!
یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر !!!!
یوں بھی ہوگا خود اُسی میں اک خلا رہ جائے گا
ہمارے لب تو دُعائیں جلائے رکھتے ہیں
پر آسماں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
تو انتخاب رنگ میں مصروف رہا اور کوئی
ترے جنوں میں سیاہ پوش ہوگیا
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں 
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئی لشکر میں ہوں
سینے میں مرے زہر اترنے نہیں دیتے 
زندہ رہیں وہ لوگ جو مرنے نہیں دیتے
احمد نوید
غور سے دیکھ تِرے ساتھ چلی آئی ہیں !!
تیرا جانا مِری آنکھوں کو گوارہ ہی نہ تھا
یاسمین حبیب
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی۔۔
آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بیکار جائے گا۔
ہوتا نہیں اب ان کی محفل میں شمار اپنا 
یوں بیٹھے ہیں ہم جیسے اُٹھ سے گئے محفل سے
(شوکت علی خاں فانی)
ہے عشق کی منزل میں یہ حال اپنا کہ جیسے
لٹ جائے کہیں راہ میں ساماں کسی کا
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟

لیلیٰ ترے صحراوں میں محشر ہیں ابھی تک

لیلیٰ ترے صحراوں میں محشر ہیں ابھی تک
اور بخت میں ہر قیس کے پتھر ہیں ابھی تک

نیزوں پہ حسین آج بھی کرتے ہیں تلاوت
اور دست ِ یزیدی میں بھی خنجر ہیں ابھی تک

گل رنگ ہوئی دار کہ یاران ِسحر خیز
درویش سے منصور و قلندر ہیں ابھی تک