سبب ڈھونڈو گے تو عمریں بیت جائیں گی
کہا نہ یاد آتے ہو، تو بس آتے ہو
کچھ ایسےخوش بھی نہیں آشیانہ چھوڑ کے ہم
ٹھکانے لگ نہیں پائے ٹھکانہ چھوڑ کے ہم
کمانِ شوق نے پھینکا تھا دور اور کہیں
کہاں پہ آن گرے ہیں نشانہ چھوڑ کے ہم
ابھی خبر نہیں چلنا ہے نو کہ یا سو دن
نئے کے ساتھ چلے ہیں پرانا چھوڑ کے ہم
بھلا بتاؤ کہیں اور جائیں گے کیسے
تمہارا طرزِ رخِ دلبرانہ چھوڑ کے ہم
اسے منا نہیں پائے تو یہ بھی خوب ہوا
اسی سے روٹھ گئے ہیں منانا چھوڑ کے ہم
کوئی خبر نہیں کس انتہا کو لے جائے
چنیں جو رستہ کوئی درمیانہ چھوڑ کے ہم
پڑھیں گے لوگ یقناً ہمارے بعد ہمیں
گزرتے جاتے ہیں اپنا فسانہ چھوڑ کے ہم
ہمیں حواس پہ قابو نہیں رہا ناصر
اسے بُلا بھی رہے ہیں بلانا چھوڑ کے ہم
ناصر علی (از کتب الشباہت)
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابلِ نقاب نہ تھا
شبِ وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تونے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشہء شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیان کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا
جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر
اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا
وصل ھو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کي بات کو کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائي کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھي سرگرمِ ستم وہ آنکھيں
آپ تو سوتے ہيں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمي زاد ھيں دنيا کے حسيں ،ليکن امير
يار لوگوں نے پري زاد بنا رکھا ہے