Tuesday 29 January 2013



سبب ڈھونڈو گے تو عمریں بیت جائیں گی
 کہا نہ یاد آتے ہو، تو بس آتے ہو


ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
 ﺑﮑﮭﺮﺗﺎ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻮﮞ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ

 ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺁ ﺟﺎﺅ
 ﺗﮑﻠﻒ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ

 ﻣﯿﮟ ﺷﺒﻨﻢ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
 ﻋﺠﺐ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺪﺍ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ

 ﺗﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ
 ﻧﺎ ﮐﺮ ﻋﮩﺪ ﻭﻓﺎ ، ﻋﮩﺪ ﻭﻓﺎ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ .

بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں

نہیں نہیں! یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے! آ کے چلے بھی گئے!ملے بھی نہیں!

یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں

ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سِلے بھی نہیں

خفا اگرچہ ہمیشہ ہُوئے مگر اب
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گِلے بھی نہیں

پروین شاکر

ناجائز کمائیوں سے بنے محلات پر لکھ دینا کہ یہ اللہ کے فضل سے بنا ہے، ایک ظلم ہے

پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زبان سے
اک دن جو پوچھ بیٹھیے کیا چاہیے ہمیں

پلایا تھا ہمیں امرت کسی نے
مگر منہ سے لہو کے جھاگ نکلے

Joan Elia

کوئی تعلق ہی نہ رہے
جب کہ سبب بھی باقی ہو
کیا میں اب بھی زندہ ہوں
کیا تم اب بھی باقی ہو ؟

ٕ“میرے غصے کے بعد بھی ‘‘
فارحہ کیا بہت ضروری ہے
ہرکسی شعر ساز کو پڑھنا ؟
کیا مری شاعری میں کم ہے گداز ؟
کیا کسی دل گداز کو پڑھنا۔۔
یعنی میرے سوا بھی اور کسی
شاعرِ دل نواز کو پڑھنا ۔۔۔
کیا کسی اور کی ہو تم محبوب ؟
یوں کسی فن طراز کو پڑھنا
حد ہے ، خود تم کو بھی نہیں آیا
اپنے قرآنِ ناز کو پڑھنا ؟؟
یعنی خود اپنے ہی کرشموں کی
داستانِ دراز کو پڑھنا ۔۔
ٹھیک ہے گر تمھیں پسند نہیں
اپنی رودادِ راز کو پڑھنا۔۔۔
واقعی تم کو چاہیے بھی نہیں
مجھ سے بے امتیاز کو پڑھنا
کیوں تمھاری انا قبول کرے
مجھ سے اک بے نیا زکو پڑھنا
میرے غصّے کے بعد بھی تم نے ۔۔۔
نہیں چھوڑا مجازکو پڑھنا ۔۔۔

جون ایلیا‌‌

جدائی اپنی بے رُوداد سی تھی
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں

وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب
وہ سارا ماجرہ جو تھا وہ تھا نئیں۔۔۔

﴿جون ایلیا﴾

خود اپنےآپ سے ھم سخن رہنا۔۔
ھمنشیں، سانس پھول جاتی ہے۔

Jaun Eli

کوئی بتاؤ کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟
وہ جان_جاں تھا مگر ' ہم تو اب بھی جیتے ہیں

جون ایلیا

منتیں ھیں خیال کی تیرے۔۔۔۔۔
خوب گزری تیرے خیال کیساتھ
-
میں نے اک زندگی بسر کردی
تیرے نا دیدہ خدوخال کےساتھ

جون

یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھرمیں ہر شخص سے الجھتا ہوں

زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملیے اور مل کر دور ہوتے جایئے

میرے ساحر سے کہہ دینا
 مسافر آج تک چپ ہے
 کہ اُس کے ہاتھ میں تم نے
 جو اپنا ہاتھ رکھا تھا
 وہ اب تک یاد کرتا ہے

 میرے ساحر سے کہہ دینا
 کہ صدیوں کی مسافت نے
 میرے پیروں سے باندھی ہے
 تھکن اب کے برس اتنی۔۔۔
 کہ اپنی ڈوبتی نبضوں سے خائف سا رہتا ہوں۔۔۔
 نہ جانے کب کہاں پہ عمر کی یہ ڈور کٹ جائے۔۔۔
 میں اپنے اور تمہارے بیچ کے ان فاصلوں کو۔۔۔
 چند سانسوں کی کمی سے ہار نہ جاؤں۔۔۔
 بساط جان پر پھیلی دوریوں کے بوجھ کو لے کر۔۔۔
 یوں ہی مرجاؤ۔۔۔

 میرے ساحر سے کہہ دینا ۔۔۔
 کہ اُس کے عشق کے تلسم سے اب تک وہ نہیں نکلے۔۔۔
 کہ جن کو اُس کی آنکھوں نے فقط ایک بار دیکھا تھا۔۔۔
 میرے ساحر سے کہہ دینا ۔۔۔
 کہ سارے شہر کو میرے ۔۔۔
 یوں ہی پتھر نہ رہنے دے۔۔۔
 میرے طلسم کدو میں لوٹ کر آئے۔۔۔
 کہ وہ پتھر ترستے ہیں۔۔۔
 تمہاری چشم کی جنبش انہیں اک بارپھر کردے۔۔۔
 کسی ذی روح کی مانند۔۔۔

 میرے ساحر سے کہہ دینا ۔۔۔
 بچھڑ کر تم جو ملتے تھے۔۔۔
 تو یوں محسوس ہوتا تھا۔۔۔
 کہ جیسے مرگ کے دھندلے کناروں تک پہنچتے ہی۔۔۔
 ادھورا کام کوئی زندگی کو یاد آجائے۔۔۔
 کہو پھر سے چلے آئے۔۔۔
 کہ اُس کے لوٹ آنے سے۔۔۔
 ہماری ڈوبتی نبضوں کو پھر سے سانس آجائے۔۔۔
 اگر صحراسے گزرو تو۔۔۔

 میرے ساحر سے کہہ دینا ۔۔۔
 اگر جنگل سے گزرو تو۔۔۔
 میرے جگنو سے کہہ دینا۔۔۔
 تمہاری بے سبب دوری۔۔۔
 مجھے اکثر رلاتی ہے ۔۔۔
 میری شامیں ادھوری ہیں۔۔۔
 میرا راتیں بھی تیراہیں۔۔۔
 میرے سب طاق خالی ہیں۔۔۔
 میری آنکھیں سوالی ہیں ۔۔۔
 میرے جگنوں سے کہہ دینا۔۔۔
 محبت آج تک چپ ۔۔۔
 کہ اُس کے ہاتھ میں اُس نے۔۔۔
 جو دہکا داغ رکھا تھا۔۔۔
 وہ اب تک بات کرتا ہے ۔۔۔
 میرے جگنوں سے کہہ دینا۔۔۔
 میرے جذبوں نے راہوں میں۔۔۔
 مہارے روک رکھی ہیں۔۔۔
 انہیں ازنِ سفر دے دو۔۔۔
 انہیں دل سے گزرنے دو۔۔۔
 میرے جگنو سے کہہ دینا ۔۔۔
 میری آنکھوں کو کم کہہ دو۔۔۔
 یہ عمروں سے یوں ہی بے جان ہیں۔۔۔
 خوابوں کے مدفن میں ۔۔۔
 انہیں پھر سے جلا دے دو۔۔۔

 میرے ساحر سے کہہ دینا۔۔۔
 غموں نے راگ چھیڑا ہے۔۔۔
 اذیت رقص کرتی ہے ۔۔۔
 میری تنہائیوں کا چرچا۔۔۔
 درونِ ذات پھیلا ہے ۔۔۔
 میرے جگنوں سے کہہ دینا۔۔۔
 فقط اُس کی کمی نے ۔۔۔
 زندگی میں سوگ رکھا ہے۔۔۔
 میرے جگنوں سے کہہ دینا۔۔۔
 کیوں جنگل میں بھٹکتا ہے ۔۔۔
 کیوں خود کو روک رکھا ہے ۔۔۔
 تمہاری بے سبب دوری مجھے اکثر رلاتی ہے ۔۔۔
 اگر جنگل سے گزرو تو۔۔۔
 میرے جگنو سے کہہ دینا۔۔۔
 اگر صحراسے گزرو تو۔۔۔

 میرے ساحر سے کہہ دینا


ہم اسیرِ دل و جاں خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں
 خلقتِ شہر تو _______ ہونے کو خدا بھی ہو جائے


بلا کی دھوپ تھی ساری فضا دہکتی رہی
 مگر وفا کی کلی شاخ پر چٹکتی رہی
 بچھڑتے وقت میں اُس کو دلاسہ دیتا رہا
 وہ بے زباں تھی مجھے بے بسی سے تکتی رہی

Sunday 27 January 2013



کچھ ایسےخوش بھی نہیں آشیانہ چھوڑ کے ہم
ٹھکانے لگ نہیں پائے ٹھکانہ چھوڑ کے ہم

کمانِ شوق نے پھینکا تھا دور اور کہیں
کہاں پہ آن گرے ہیں نشانہ چھوڑ کے ہم

ابھی خبر نہیں چلنا ہے نو کہ یا سو دن
نئے کے ساتھ چلے ہیں پرانا چھوڑ کے ہم

بھلا بتاؤ کہیں اور جائیں گے کیسے
تمہارا طرزِ رخِ دلبرانہ چھوڑ کے ہم

اسے منا نہیں پائے تو یہ بھی خوب ہوا
اسی سے روٹھ گئے ہیں منانا چھوڑ کے ہم

کوئی خبر نہیں کس انتہا کو لے جائے
چنیں جو رستہ کوئی درمیانہ چھوڑ کے ہم

پڑھیں گے لوگ یقناً ہمارے بعد ہمیں
گزرتے جاتے ہیں اپنا فسانہ چھوڑ کے ہم

ہمیں حواس پہ قابو نہیں رہا ناصر
اسے بُلا بھی رہے ہیں بلانا چھوڑ کے ہم

ناصر علی 
(از کتب الشباہت)


وہ مجھےٹوٹ کےچاہےگا،چھوڑجاۓگا.
مجھےیہ خبرتھی اسےیہ ہنربھی آتاہے.



سفر کی دھوپ میں جل کر کسے پکاروں میں
 کہ راستے میں انا کا شجر بھی آتا ھے ......

مُجھے دوہری اذیت جھیلنا ہے
مرا قاتل بھی .. مارا جا رہا ہے


پل بهر وہ چشم _ تر سے مجهے دیکهتا رہا .....
پهر اس کے آنسوٶں سے میری آنکهہ بهر گئ ..........


پل بهر وہ چشم _ تر سے مجهے دیکهتا رہا .....
پهر اس کے آنسوٶں سے میری آنکهہ بهر گئ ..........


جس کا اک مصرعہ ہوں میں دوسرا مصرعہ تم ہو .....
بس وہی شعر مکمل نہیں ہونے والا


جب بهی کسی نگاہ نے موسم سجاےء ہیں ...
تیری گلی کے پهول بہت یاد آےء ہیں .....



صدیون سے راه تکتی هوئی گهاٹیون مین تم

اک لمحه آکے هنس گئے مین ڈهونڈهتا پهرا


راهین دهوئین سے بهر گئین مین منتظر رها

قرنون کے رخ جهلس گئے مین ڈهونڈهتا پهرا


تم پهر نه آسکو گئے بتانا تو تها مجهے

تم دور جا کے بس گئے مین ڈهونڈهتا پهرا


ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﻮﻧﮩﯽ
ﺣﺮﺝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳ
ﮯ ﻣﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿ

اسے کہیہ دو نظر آ کے
اذیت مختصر کر دے .....

سائل ہے مگر دست_ طلب کانپ رہا ہے،
یہ شخص مجھے مانگنے والا نہیں لگتا.


ہیں سب اک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نئیں

اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھہ دنوں تو خدا رہا مجھہ میں ..

تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں


ہمارے بعد بھی ایسا کسی کو پاؤ تو 
ہمارے بعد بھی ایسا کسی سے مت کرنا

Saturday 26 January 2013

کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا - امیر مینائی



کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابلِ نقاب نہ تھا

شبِ وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا

لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا

مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا

نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا

غضب کیا کہ اسے تونے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشہء شراب نہ تھا

زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا

تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا

دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا

میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا

بیان کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا
جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا

وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا

جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا

سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا

ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر
اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا

وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا - امیر مینائی


وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا

لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہوسکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا

اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے ضرور ہے جرم
کہ کوئی یہ نہ کہے قابلِ عذاب نہ تھا

شکایت اُن سے کوئی گالیوں کی کیا کرتا
کسی کا نام کسی کی طرف خطاب نہ تھا

نہ پوچھ عیش جوانی کا ہم سے پیری میں
ملی تھی خواب میں وہ سلطنت شباب نہ تھا

دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح
دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا

وہ کہتے ہیں شبِ وعدہ میں کس کے پاس آنا
تجھے تو ہوش ہی اے خانماں خراب نہ تھا

ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر
میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا

فلک نے افسرِ خورشید سر پہ کیوں رکھا
سبوے بادہ نہ تھا ساغرِ شراب نہ تھا

غرض یہ ہے کہ ہو عیش تما م باعث مرگ
وگرنہ میں کبھی قابلِ خطاب نہ تھا

سوال وصل کیا یا سوال قتل کیا
وہاں نہیں کے سوا دوسرا جواب نہ تھا

ذرا سے صدمے کی تاب اب نہیں وہی ہم میں
کہ ٹکڑے ٹکڑے تھا دل اور اضطراب نہ تھا

کلیم شکر کرو حشر تک نہ ہوش آتا
ہوئی یہ خیر کہ وہ شوق بے نقاب نہ تھا

یہ بار بار جو کرتا تھا ذکر مے واعظ
پئے ہوئے تو کہیں خانماں خراب نہ تھا

امیر اب ہیں یہ باتیں جب اُٹھ گیا وہ شوخ
حضور یار کے منہ میں ترے جواب نہ تھا

وصل ھو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے - امیر مینائی


وصل ھو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کي بات کو کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائي کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے

کہتے ہيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے

اس تغافل میں بھي سرگرمِ ستم وہ آنکھيں
آپ تو سوتے ہيں، فتنوں کو جگا رکھا ہے

آدمي زاد ھيں دنيا کے حسيں ،ليکن امير
يار لوگوں نے پري زاد بنا رکھا ہے


واعظ بڑا مزہ ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں، ہاتھ میں جامِ شراب ہو

Monday 21 January 2013


ایک تو حسن بلا اس پہ بناوٹ آفت
گھر بگاڑیں گے ہزاروں کے، سنورنے والے

حشر میں لطف ہو جب ان سے ہوں دو باتیں
وہ کہیں کون ہو تم، ہم کہیں مرنے والے

غسل میت کو شہیدوں کو ترے کیا حاجت
بے نہائے بھی نکھرتے ہیں نکھرنے والے

حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے

تم نہیں غم نہیں شراب نہیں
ایسی تنہائی کا جواب نہیں

گاہے گاہے اسے پڑھا کیجیے
دل سے بہتر کوئی کتاب نہیں

جانے کس کس کی موت آئی ہے
آج رخ پہ کوئی نقاب نہیں

وہ کرم انگلیوں پہ گنتے ہیں
ظلم کا جن کے کچھ حساب نہیں

چلو کہیں تو کوئی نقطہ مشترک ٹہرا
تیرے عروج سے میرا زوال ملتا ہے

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فسردە تو بھی

دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں

اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں

دوستی کا دعوٰی کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں،میں تیرے غلاموں میں

جس طرح شعیب اُس کا نام چُن لیا تم نے
اُس نے بھی ہے چُن رکھا ایک نام ناموں میں

شعیب بن عزیز

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی

چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی

چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی

سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی

سرخ اور سبز وادیوںکی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی

چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی

پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی

نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی

ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی

جون ایلیا

تیرے قریب رہ کے بھی تھا تجھ سے بے خبر

تجھ سے بچھڑ کے بھی میں تیرے رابطے میں ہوں

واصف علی واصف
ہم اس پر لکھیں نام ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔نہیں
پیغام۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔نہیں
اشعار۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔نہیں
سرکارنہیں
ہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے
دل کا جو تمھارے صفحہ ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
وہ آج جو بالکل سادہ ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !
اُس پہ بھی تو ہم نے لکھا تھا۔۔۔ ۔۔۔
اک نام کبھی۔۔۔ ۔
پیغام کبھی۔۔۔ ۔۔
اشعار کبھی۔۔۔ ۔۔
سرکار کبھی۔۔۔ ۔
وہ صفحہ تم نے دھو ڈالا۔۔۔
وہ صفحہ بالکل سادہ ہے۔۔۔
اب کاغذ کے اس ٹکرے کو
کیوں لاکر آگےر کھتی ہو۔۔۔ ۔۔؟
کیوں ،نام ، پیام ، اشعار لکھیں؟
ہم لوگ تو جو سرکار لکھیں۔۔۔ ۔۔
اک بار لکھیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
ہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

ہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

ابنِ انشاء

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا

تُلتی ہے کہیں دیناروں میں، بِکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بِٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

مردوں کے لیے ہر ظلم روا، عورت کے لیے رونا بھی خطا
مردوں کے لیے ہر عیش کا حق، عورت کے لیے جینا بھی سزا
مردوں کے لیے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس اِک چِتا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اُگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے
چکلوں ہی میں آ کر رُکتی ہے، فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے
مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے
اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

(ساحر)

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا، پھر سہو کا سجدہ کرلے گا،

اس دل پہ بھروسا کون کرے،____ ہر روز مسلماں ہوتا ہے ۔

ابن انشاء

خرد مندوں کے شہرِ بے ہنر میں

وہ زندہ تھا یہی اس کا ہنر تھا

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم ۔۔
دور افق پار چمکتی ہوئی
قطرہ قطرہ۔۔
گر رہی رہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

(فیض)

ارے لوگو تمہارا کیا ؟؟؟

میں جانوں میرا خدا جانے 

رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح

خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح

پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گذاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح

( کلیم عثمانی )