Thursday 28 February 2013





القاب مجھے اس نے بھی خط میں نہیں لکھے
 میں نے بھی اسے جان سے پیارا نہیں لکھا__!

ہم نے ہر شام یہی سوچا ہے
 عمر گزری ہے ۔ ۔ ۔ کہ دن گزرا ہے

ﮐﮩﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ؟
 ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﻮ
 ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ
 ﮐﮩﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ؟


وہ میں صاف کیوں نہ کہ دوں، جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
............. تیرا درد درد تنہا، میرا غم غم زمانہ 

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے


ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے

شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے

ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے

توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدم
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے

یہ آنکھوں آنکھوں سے جو اداے خطاب ہے


یہ آنکھوں آنکھوں سے جو اداے خطاب ہے
اے نازنیں یہ طرز سخن لا جواب ہے

دنیا کے سب علوم ہیں جس میں رچے ہوے
وہ مکتب شباب کی پہلی کتاب ہے

محشر بپا ہے آگ ہے ہر سو لگی ہوئی
آتش کدہ ہے یا ترا عہد شباب ہے

آے نہ خواب میں بھی کبھی مے کدے کے وہ
تیری اداس آنکھوں میں جتنی شراب ہے

رسوائی شباب بھی رہتی ہے چپ کبھی
سارے بدن میں بجتا ہوا اک رباب ہے

کاٹی ہے اک شب جو عدم دلربا کے ساتھ
وہ رات عمر خضر کا لیب لباب ہے

عبدالحمید عدم

دوستوں کے نام یاد آنے لگے
تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے

وقت جوں جوں رائیگاں ہوتا گیا
زندگی کو کام یاد آنے لگے

خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں
دل نشیں الزام یاد آنے لگے

پھر خیال آتے ہی شامِ ہجر کا
مرمریں اجسام یاد آنے لگے

بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں


وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

---- عبدالحمید عدم

مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گا


مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گا
تری نظر کو، کئی دل نکال کر دوں گا!

وہ چشمِ مست ابھی اس سے بھی نہیں واقف
کہ میں بہک کے اچانک سوال کر دوں گا!

میری فنا تو مسلّم ہے اس کا خوف ہی کیا
تمہاری ذات کو میں لازوال کر دوں گا

ادھر سے گزریں اگر گردشیں زمانے کی!
قسم خدا کی طبیعت بحال کر دوں گا!

یقیں نہیں کہ یہ لغزش ہوئی ہو دانستہ
گماں نہ تھا کہ کبھی عرض حال کر دوں گا

میری پسند کا معیار کچھ بھی ہو تاہم
جسے چنوں گا اسے بے مثال کر دوں گا

حقیر ہوگی میری پیشکش ذلیل نہیں
جو چیز دوں گا تجھے دیکھ بھال کر دوں گا

میرے سپرد نہ کر اپنے راز اے ہمدم!
مجھے یہ ڈر ہے میں افشائے حال کر دوں گا

بہت سوال نہ کر مجھ پہ داورِ محشر!
کہ میں بھی کوئی ادق سا سوال کر دوں گا

میں اس لیے نہیں ملتا کسی مربّی سے
جسے ملوں گا اسے پرملال کر دوں گا

زہے نصیب کہ کہتا ہے خود عدم ساقی
تجھے میں اپنی محبت سے ڈال کر دوں گا

(عبدالحمید عدم)

عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی


عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی
وقت کی بات وقت پر نہ ہوئی

ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی
اتفاقاً اگر سحر نہ ہوئی

جب سے آوارگی کو ترک کیا
زندگی لطف سے بسر نہ ہوئی

اس خطا میں خلوص کیا ہوگا
جو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئی

مل گئی تھی دوائے مرگ مگر
خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئی

کس قدر سادہ لوح تھی شیریں
شعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئی

کوہکن ڈوب مر کہیں جا کر
تجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئی

خواہشیں اتنی خوبصورت تھیں
کوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئی

دل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدم
آنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئی

سید عبدالحمید عدم

Tuesday 26 February 2013


گلی میں رات بھر پھرتا ہے کوئی
گلے میں نیند کے تعویز ڈالے۔۔۔

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو


تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں ‌تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مرّوت ہو

تم ہو پہلو میں ‌پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو

تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو

کس طرح چھوڑ دوں‌ تمھیں ‌جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

داستاں‌ ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی



جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی

چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی

سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی

سرخ اور سبز وادیوںکی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی

چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی

پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی

نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی

ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی

جون ایلیا

سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا


سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا
تو بھی اے جانِ جاں یہیں ہوتا

تم بھی اکثر کہیں نہیں ہوتے
میں بھی اکثر کہیں نہیں ہوتا

زندگی اپنی جستجو ہے تری
تو جو ہے جان،تو کہیں ہوتا

دل سے بس ایک بات کہہ دیجیو
دل کا چاہا ہوا، نہیں ہوتا

تو قیامت کا بے مروت ہے
میں ترا ہمنشیں،نہیں ہوتا

بات کرتے ہیں سنگِ در کی سبھی
کوئی خونیں جبیں نہیں ہوتا

کوئی بھی دل ربا و دل بر ہو
دل سے بڑھ کر حسیں نہیں ہوتا

جون آغازِِ مے گساری میں
نشہ ہوتا ہے،پھر نہیں ہوتا

تم نہیں چاہتے مرا ہونا
چلو اچھا ہے،میں نہیں ہوتا۔
جون ایلیا 

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع


راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع

میں تیرے ساتھ بجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع

میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع

اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع

خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع

سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع

اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع

کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تو بھی ہے انسان الوداع

نسبت کسی بھی شہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع

رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے بان الوداع

اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع

جب تری جان ہو گئی ہوگی


جب تری جان ہو گئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت
وہ مِری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہو گی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہو گی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہو گی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی

مِری پتھر آنکھیں


اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاوں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مرِی بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دُھوپ کا حُرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھرآنکھیں
مصطفی زیدی

رُوح کی مَوت




چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں 
وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا 
یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے 
یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا 

لہو کے ناچتے دھارے کے سامنے اب تک 
دل و دماغ کی بےچارگی نہیں جاتی 
جنوں کی راہ میں سب کچھ گنوا دیا لیکن 
مرے شعور کی آوارگی نہیں جاتی 

نہ جانے کس لئے اس انتہائے حدت پر 
مرا دماغ سلگتا ہے جل نہیں جاتا 
نہ جانے کیوں ہر اک اُمید لوٹ جانے پر 
مرے خیال کا لاوا پگھل نہیں جاتا 

نہ جانے کون سے ہونٹوں کا آسرا پا کر 
تمھارے ہونٹ مری تِشنگی کو بُھول گئے 
وہی اصول جو مخکم تھے نرم سائے میں 
ذرا سی دھوپ میں نکلے تو جُھول جُھول گئے 

مصطفٰی زیدی 

دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعد


دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعد
کتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد

کوئی پیغام نہ دلدارِنوا تیرے بعد
خاک اڑاتی ہوئی گزری ہے صبا تیرے بعد

لب پے اک حرفِ طلب تھا نہ رہا تیرے بعد
دل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعد

عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد

دھوپ عارض کی نہ زلفوں کہ گھٹا تیرے بعد
ہجر کی رت ہے کہ محبس کی فضا تیرے بعد

لیئے پھرتی ہے سرِ کوئے جفا تیرے بعد
پرچمِ تار گریباں کو ہوا تیرے بعد

پیرہن اپنا نہ سلامت نہ قبا تیرے بعد
بس وہی ہم ہیں وہی صحرا کی ردا تیرے بعد

نکہت و نے ہے نہ دستِ قضا تیرے بعد
شاخِ جاں پر کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد

دل نہ مہتاب سے اجلا نہ جلا تیرے بعد
ایک جگنو تھا چپ چاپ بجھا تیرے بعد

درد سینے میں ہوا نوحا سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد

کونسے رنگوں کے بھنور کیسی حنا تیرے بعد
اپنا خون میری ہتھیلی پے سجا تیرے بعد

تجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا برد ہوا
کون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعد

ایک ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد

ایک قیامت کی خراشیں میرے چہرے پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد

اے فلکِ ناز میری خاک نشانی تیری
میں نے مٹی پہ تیرا نام لکھا تیرے بعد

تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد

یہ الگ بات ہے کہ افشاں نہ ہوا تو ورنہ
میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد

ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے
کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد

بجھے جاتے ہیں خد و خال مناظر افق
پھیلتا جاتا ہے خواہش کا خلا تیرے بعد

میرے دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینا
میں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعد

سہہ لیا دل نے تیرے بعد ملامت کا عذاب
ورنہ چبھتی ہے رگِ جاں میں ہوا تیرے بعد

جانِ محسن میرا حاصل یہی مبہم سطریں
شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں


میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہِ زخمِ غمِ دیدہِ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعیت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !

محسن نقوی

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے


شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والے

اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاوں والے

سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے

ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاوں والے

کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پر شور ہواوں والے

تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے

ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداوں والے

محسن نقوی

خدشہ


یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور

یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار

یہ تیرے لب، یہ دیارِ یمن کے سرخ عقیق

یہ آئینے سی جبیں، سجدہ گاہِ لیل و نہار



یہ بےنیاز گھنے جنگلوں سے بال تیرے

یہ پھولتی ہوئی سرسوں کاعکس گالوں پر

یہ دھڑکنوں کی زباں، بولتے ہوئے ابرو

کمند ڈال رہے ہیں میرے خیالوں پر



یہ نرم نرم سے ہاتھوں کا گرم گرم لمس

گداز جسم پہ بلور کی تہوں کا سماں

یہ انگلیاں، یہ زمرد تراشی شاخیں

کِرن کِرن ترے دانتوں پے موتیوں کا گماں



یہ چاندنی میں دُھلے پاؤں جب بھی رقص کریں

فضا میں اَن گنِے گھنگھرو چھنکنے لگتے ہیں

یہ پاؤں جب کسی رستے میں رنگ برسائیں

تو موسموں کے مقدر چمکنے لگتے ہیں



تیری جبیں پہ گر حادثوں کے نقش ابھریں

مزاجِ گردشِ دوراں بھی لڑکھڑا جائے

تُو مسکرائے تو صُبحیں تجھے سلام کریں

تُو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے



تیرا خیال ہے خوشبو، تیرا لباس ہے کرن

تُو خاک زاد ہے یا آسماں سے اتری ہے

میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتا ہوں

یہ موجِ رنگ زمیں پہ کہاں سے اتری ہے



میں کس طرح تجھے لفظوں کا پیرہن بخشوں

میرے ہنر کی بلندی تو سر نگوں ہے ابھی

تیرے بدن کے خدوخال میرے بس میں نہیں

میں کس طرح تجھے سوچوں،یہی جنوں ہے ابھی



ملے ہیں یوں تو کئی رنگ کے حسیں چہرے

مگر میں بے نیاز رہا موجہ صبا کی طرح

تیری قسم تیری قربت کے موسموں کے بغیر

میں بھی زمین پہ اکیلا پھرا دیوانے کی طرح



مگر میں شہرِِ حوادث کے سنگ زادوں سے

یہ آئینہ سا بدن کس طرح بچاؤں گا

مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے کرب سمیت

میں خود بھی دکھ کے سمندرمیں ڈوب جاؤں گا



مجھے یہ ڈر ہے کہ تیرے تبسّموں کی پھوار

یوں ہی وفا کا تقاضا، حیا کا طور نہ ہو

تیرا بدن، تیری دنیا ہے منتظر جس کی

میں سوچتا ہوں میری جاں وہ کوئی اور نہ ہو



میں سوچتا ہوں مگر سوچنے سے کیا حاصل !!!

یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور ۔ ۔ ۔ ۔