Sunday 31 March 2013

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں


غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں 
تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں 

نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا 
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں 

ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم 
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں 

جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا 
کاٹتا ہوں ذندگی بھر میں نے جو بویا نہیں 

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر 
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں 

(منیر نیازی)

لگانا دل کسی نامہرباں سے


لگانا دل کسی نامہرباں سے
زمیں کی دوستی ہے آسماں سے

نظر آتے تھے تم تو بے زباں سے
یہ باتیں آ گئیں تم کو کہاں سے

نظر آتے ہیں وہ کچھ مہرباں سے
گرے گی کوئی بجلی آسماں سے

یہ ننگِ عجز ہے اک بار رکھ کر
اٹھانا سر کسی کے آستاں سے

وصالِ جاودانی چاہتا ہوں
مگر وہ زندگی لاؤں کہاں سے

سنا دوں داستانِ غم سنا دوں
اگر تُو سن سکے میری زباں سے

اُنہیں باتوں سے جو بیتاب کر دے
الٰہی وہ زباں لاؤں کہاں سے

کریں کیا ان سے اظہارِ محبت
وہ سن لیں گے ہمارے رازداں سے

(صوفی تبسّم)

ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی


ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی
جاتی نہیں بے تابیِ الفت، نہیں جاتی

میخانے میں آ کر بھی وہی توبہ کی تلقین
واعظ یہ تری وعظ کی عادت نہیں جاتی

یاں گردشِ ساغر ہے وہاں گردشِ دوراں
افلاک کی رندوں سے رقابت نہیں جاتی

ہر روز تبسّم ہے تجھے ہجر کا رونا
کم بخت تری شومیِ قسمت نہیں جاتی

(صوفی تبسّم)

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے


آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے
کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے

اس معرکۂ عشق میں اے اہلِ محبت
آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کی جائے

یہ دل کہ اُسی زُود فراموشی پہ مائل
اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے

ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق
مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے

یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں
کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے

اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھر


اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھر
میں نے بھی یارو چھیڑ دی اک سرد جنگ پھر

لایا گیا ہوں پھر سے سرِمقتلِ حیات
ہونے لگا بدن سے جدا انگ انگ پھر

ثابت ہوا کہ تو بھی نہیں مستقل علاج
لگنے لگا ہے روح کے ملبے کو زنگ پھر

یوں لامکاں تو اپنا ستارہ کبھی نہ تھا 
یہ کیا ہوا کہ کٹ گئی اپنی پتنگ پھر

پیاسے لبوں کو یا تو سمندر نصیب کر
یا ہو عطا علاقۂ پر خشت و سنگ پھر

جب تو فصیلِ شب سے پکارے گا رات بھر
تب میں فصیلِ جاں سے اُتاروں گا زنگ پھر

إس بار تو خدا کی قسم کچھ نہیں کہا
کیوں اُڑ گیا جناب کے چہرے کا رنگ پھر

عزیز نبیل

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو



گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور
"فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو"

معیار اپنا ہم نے گرایا نہیں کبھی


معیار اپنا ہم نے گرایا نہیں کبھی
جو گر گیا نظر سے وہ بھایا نہیں کبھی

حرص وہوس کو ہم نے بنایا نہیں شعار
اور اپنا اعتبار گنوایا نہیں کبھی

ہم آشنا تھے موجوں کے برہم مزاج سے
پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں کبھی

اک بار اس کی آنکھوں میں دیکھی تھی بے رخی
پھر اس کے بعد یاد وہ آیا نہیں کبھی

تنہائیوں کا راج ہے دل میں تمہارے بعد
ہم نے کسی کو اس میں بسایا نہیں کبھی

تسنیم جی رہے ہیں بڑے حوصلے کے ساتھ
ناکامیوں پہ شور مچایا نہیں کبھی

(تسنیم کوثر)

وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں




وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں

اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی 
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں

کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں

واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں 
ہم تیری گفتگو کا بُرا مانتے نہیں

حد سے بڑھے توعلم بھی ہے جہل دوستو 
سب کچھ جو جانتے ہیں، وہ کچھ جانتے نہیں

رہتے ہیں عافیّت سے وہی لوگ اے خمار 
جو زندگی میں دل کا کہا مانتے نہیں

خماربارہ بنکوی 

اے برقِ حسن تیرا ادنیٰ یہ شعبدہ تھا


اے برقِ حسن تیرا ادنیٰ یہ شعبدہ تھا
موسیٰ پڑے تھے غش میں اور طور جل رہا تھا

خود رفتگی نے ہم کو دنیا سے کھو دیا تھا
اُس کی تلاش کیسی اپنا کسے پتا تھا

جب دل ملے ہوئے تھے الفت میں بھی مزا تھا
وہ مجھ کو ڈھونڈتے تھے میں ان کو ڈھونڈتا تھا

تیری تلاش مجھ کو لے آئی میرے دل تک
دیر و حرم میں تجھ کو بیکار ڈھونڈتا تھا

بسمل کے دل کی حسرت کن سختیوں سے نکلی
خنجر تھا کند اُس کا اور ہاتھ کانپتا تھا

منصور اور انا الحق، پھر دار کی سزا بھی
قصہ وہ اور ہی تھا کچھ اور ماجرا تھا

معشوق میہماں ہو عاشق کا غیر ممکن
سامان یہ مہیا قسمت نے کر دیا تھا

ٹھکرا نہ میری تربت، اِترا کے چلنے والے
تیری ہی طرح میں بھی، اک بندۂ خدا تھا

کیا کیف اس کو ہوتا دنیا کے میکدے میں
جو بادۂ ازل سے سرشار ہو چکا تھا

اے جذبۂ تصور اللہ رے تیری قدرت
قربِ بہم کا باعث، کوسوں کا فاصلہ تھا

اے شوق میری اس کی یکرنگیاں نہ پوچھو
یہ جان لو، دوئی کا پردہ اٹھا ہوا تھا

(فقیر اللہ میرٹھی 'شوق')

انشاء جی



انشاء جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے تم تنہا ہو
یہ جوگ بے جوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورپ میں کبھی پچھم میں
تم پرواہ ہو تم پچھواہ ہو
جو نگری نگری بھٹکائے ہے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دکھیا ہو
کیا تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایہ ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بھگیا کا بیلا ہو
تم کس ساغر کی لہر بھلا
تم کس بادل کی برکھا ہو
تم کس پونم کا اجیارہ
کس اندھی رین کی اوشا ہو
تم کن ہاتھوں کی مہندی ہو
تم کس ماتھے کا ٹیکہ ہو
کیوں شہر تجا کیوں جوگ لیا
کیوں وحشی ہو کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں روپ نیا
ہم کیا جانے تم کیا کیا ہو
جب سورج ڈوبے سانج بہئے
اور پھیل رہا اندھیارہ ہو
کس ساز کی لحہ پر چھنن چھنن
کس گیت کا مکھڑا جاگا ہو
اس تال پہ ناچتے پیڑوں میں
اک چپ چپ ندیا بہتی ہو
ہوچاروں اوٹ سگہن بسی
یوں جنگل پہنا گجرا ہو
یہ عنبر کے مکھ کا آنچل
اس آنچل کا رنگ اودھا ہو
ایک گوٹ دو پیلے تاروں کی
اور بیچ سنہرا چندا ہو
اس سندر شیتل شام سمے
ہاں بولو بولو پھر کیا ہو
وہ جس کا ملنا ناممکن
وہ مل جائے تو کیسا ہو

ہمت مرا دل جو کھو رہا ہے


ہمت مرا دل جو کھو رہا ہے 
یہ جسم بھی سرد ہو رہا ہے

دشمن ہے مگر یہ کیسے کہہ دوں
کچھ روز وہ دوست تو رہا ہے

کیا رنج ہے جس کو اوڑھ کر دل
پہلو میں خموش سو رہا ہے

کالک تو نصیب پر لگی تھی
معصوم ہے چہرہ دھو رہا ہے

کیوں بھیگ رہی ہے رات میری
کیا کوئی کہیں پہ رو رہا ہے


اک خواب ہے جو امید کا بیج
پھر آنکھ میں میری بو رہا ہے 

پھر خالق باد و آب و گل کا 
کونپل میں ظہور ہورہا ہے 


اک آہ کے ساتھ جاگ اٹھے گا
اس خاک میں شعلہ سو رہا ہے


ثمینہ راجہ


کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے


کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے
شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے

پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے
پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے

خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے
آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے

آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر خانہ ہے

فاتحہ پڑھنے کو آیا تھا مگر وہ شمع رُو
آج میری قبر کا جو پھول ہے پروانہ ہے

درد سے بھرتے ہیں آنسو ضبط سے پیتے ہیں ہم
آنکھ کی ہے آنکھ یہ پیمانے کا پیمانہ ہے

پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے
چال سے خالی کہاں یہ لغزشِ مستانہ ہے

کوہ کن کا تھا یہی پیشہ جو کاٹا تھا پہاڑ
کم مشکل جاں کنی اے ہمتِ مردانہ ہے

جب پڑا ہے وقت کوئی، ہو گئے ہیں سب الگ
دوست بھی اپنا نہیں، بیگانہ تو بیگانہ ہے

اس کے در پر جا کے ہوتا ہے گدا کو بھی یہ ناز
لوگ کہتے ہیں مزاج اس شخص کا شاہانہ ہے

مجھ کو لے جا کر کہا ناصح نے ان کے روبرو
آپ کے سر کی قسم یہ آپ کا دیوانہ ہے

اس کو دیوانہ بنا لوں تو کروں جھک کر سلام
میں تو بھولا ہوں مگر دشمن بڑا فرزانہ ہے

ہم نے دیکھا ہی نہیں خالی نحوست سے کوئی
زاہدوں کو مبارک سبحۂ صد دانہ ہے

داغ یہ ہے کوئے قاتل، مان ناداں ضد نہ کر
اٹھ یہاں سے ادھر، گھر بیٹھ، کچھ دیوانہ ہے

(داغ دہلوی)

ترے پہلو میں لے آئی


ترے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش
کہ گل کو شاخ تک لاتی ہے جھڑ جانے کی خواہش

تمہیں بسنے نہیں دیتا ہے بربادی کا دھڑکا
ہمیں آباد رکھتی ہے اُجڑ جانے کی خواہش

خلا میں جو ستاروں کے غبارے اڑ رہے ہیں
انہیں پھیلائے رکھتی ہے سُکڑ جانے کی خواہش

کہاں تک دیکھتے ہیں، آسماں کی وسعتوں میں
اڑاتی ہے ہمیں مٹی میں گڑ جانے کی خواہش
جواز جعفری

میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے


میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا
جانے کیا تھی بات میں جاگا کیا روتا رہا

شبنمی میں دھوپ کی جیسے وطن کا خواب تھا
لوگ یہ سمجھے میں سبزے پر پڑا سوتا رہا

وادیوں میں گاہ شبنم اور کبھی خونناب سے
ایک ہی تھا داغ سینے میں جسے دھوتا رہا

اک ہوائے بے تکاں سے آخرش مرجھا گیا
زندگی بھر جو محبت کے شجر بوتا رہا

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

رات کی پلکوں پہ تاروں کی طرح جاگا کیا
صبح کی آنکھوں میں شبنم کی طرح روتا رہا

روشنی کو رنگ کر کے لے گئے جس رات لوگ
کوئی سایا میرے کمرے میں چھپا روتا رہا
بشیر بدر

دستیاب عورتیں


یہ دستیاب عورتیں
یہ بے حجاب عورتیں 
جنہوں نے سارے شہر کو
کمالِ عشوہ و ادا سے 
شیوہء جفا نما سے
بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
جانے کون چور راستوں سے 
کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں
کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے
ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری
معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے
کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
زنانِ کوچہء سخن کو اِذن ِ شعر و شاعری
بس ایک دعویِ سخن وری کی دیر ہے کہ پھر
تمام عیش ِ زندگی
قبول ِ عام ۔۔ شہرت ِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
پیش ہوں گے طشتِ خاص و عام میں سجے ہوئے
مگر یہ ہے کہ دعویء سخن وری کے واسطے
کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے
خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر
گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے''
یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم ۔۔۔ ۔۔
زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے
مچل گئیں ۔۔۔ متاع ِ شعر کے حصول کے لیے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے
'' نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض''
نہ پاسبانِ کوچہء سخن کو کچھ خبر ہوئی
نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا
نجانے کب مذاق ِ حسن و عشق 
اپنا منہ چھپا کے سو گیا
کمال ِ فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا
یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا
اور اب جدھر بھی دیکھئے
ہیں بے حساب عورتیں
ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
شب کے سارے راستوں پہ
دستیاب عورتیں

(ثمینہ راجہ)