تمھیں چھو کر نہ دیکھا تھا
تو یوں محسوس ھوتا تھا
یہ ھیرے سا بدن جیسے کسی پتھر سے نکلا ھو
مگر اب چھو کے دیکھا ھے
تو یوں محسوس ھوتا ھے
تمھاری نرم پوروں کا مقدس لمس پتھر کو ابھی تحلیل کر دے گا
نہ جانے کیوں یہ لگتا ھے
کبھی بہتے ھوے۶ دریا میں تم انگلی ڈبو دو گی تو پانی ٹھر جاے۶ گا
تمھاری میکشی آنکھیں
کبھی صحرا کو دیکھیں تو اسے گل زار کر دیں گی
تمھیں ھنستے نہیں دیکھا مگر محسوس ھوتا ھے
اگر تم مسکراو۶ گی تو منظر بول اٹھیں گے
پرندے لا مکانوں میں لکھی ھوی۶ نظم چھیڑیں گے
شگوفے گیت گا۶یں گے
نہ جانے کیوں یہ لگتا ھے
سلیقے سے بندھی زلفیں کسی دن کھول دو گی تو
چمکتی دو پہر اک دم اندھیری رات کر دو گی
کڑکتی دھوپ بھادوں کی بھری برسات کر دو گی
تمھیں نزدیک سے دیکھا ھے تو محسوس ھوتا ھے
کسی دن آسمانوں کا اچانک راستہ کھو کر
زمیں پر آگی۶ ھو تم
No comments:
Post a Comment