Monday 18 March 2013

تمھیں چھو کر نہ دیکھا تھا



تمھیں چھو کر نہ دیکھا تھا
تو یوں محسوس ھوتا تھا

یہ ھیرے سا بدن جیسے کسی پتھر سے نکلا ھو

مگر اب چھو کے دیکھا ھے
تو یوں محسوس ھوتا ھے

تمھاری نرم پوروں کا مقدس لمس پتھر کو ابھی تحلیل کر دے گا
نہ جانے کیوں یہ لگتا ھے
کبھی بہتے ھوے۶ دریا میں تم انگلی ڈبو دو گی تو پانی ٹھر جاے۶ گا
تمھاری میکشی آنکھیں

کبھی صحرا کو دیکھیں تو اسے گل زار کر دیں گی
تمھیں ھنستے نہیں دیکھا مگر محسوس ھوتا ھے

اگر تم مسکراو۶ گی تو منظر بول اٹھیں گے
پرندے لا مکانوں میں لکھی ھوی۶ نظم چھیڑیں گے

شگوفے گیت گا۶یں گے
نہ جانے کیوں یہ لگتا ھے

سلیقے سے بندھی زلفیں کسی دن کھول دو گی تو
چمکتی دو پہر اک دم اندھیری رات کر دو گی

کڑکتی دھوپ بھادوں کی بھری برسات کر دو گی
تمھیں نزدیک سے دیکھا ھے تو محسوس ھوتا ھے

کسی دن آسمانوں کا اچانک راستہ کھو کر
زمیں پر آگی۶ ھو تم

No comments:

Post a Comment