سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہماے غمِ دوست ایک نگاہِ کرمکون اٹھ کر گیا ہے محفل سےبزم کی بزم ہو گئی برہمعشق نے یوں کہا افسانۂ دردحسن کی آنکھ بھی ہوئی پرنمنہ جھکے گا یہ سر کسی در پرمجھ کو تیرے ہی آستاں کی قسماپنی ناکام آرزوؤں کوکس تمنّا سے دیکھتے ہیں ہمکیسی کیسی خزاں سے گزرے ہیںخوب گزرا بہار کا موسمزندگی اور یہ غمِ پیہم!زندگی ہے کہ زیست کا ماتمکل ترستا تھا جس بہار کو دلآج روئے ہیں اس بہار پہ ہم(صوفی تبسّم)
No comments:
Post a Comment