Wednesday 20 March 2013

سرشار ہوں



سرشار ہوں، سرشار ہے دنیا مرے آگے
کونین ہے اک لرزشِ صہبا مرے آگے

ہر نجم ہے اک عارضِ روشن مرے نزدیک
ہر ذرّہ ہے اک دیدۂ بینا مرے آگے

ہر جام ہے نظّارۂ کوثر مرے حق میں
ہر گام ہے گل گشتِ مصلّیٰ مرے آگے

ہر پھول ہے لعلِ شکر افشاں کی حکایت
ہر غنچہ ہے اک حرفِ تمنا مرے آگے

اک مضحکہ ہے پرسشِ عقبیٰ مرے نزدیک
اک وہم ہے اندیشۂ فردا مرے آگے

ہوں کتنی ہی تاریک شبِ زیست کی راہیں
اک نور سا رہتا ہے جھلکتا مرے آگے

میں اور ڈروں صولتِ دنیائے دنی سے!
خود لرزہ بر اندام ہے دنیا مرے آگے

جھکتا ہے بصد عجز، کلیسا مرے در پر
آتا ہے لرزتا ہوا کعبا مرے آگے

پیمانے سے جس وقت چھلک جاتی ہے صہبا
لہراتا ہے اک حُسن کا دریا مرے آگے

جب چاند جھمکتا ہے مرے ساغرِ زر میں
چلتا نہیں خورشید کا دعویٰ مرے آگے

جب جھوم کے مینا کو اٹھاتا ہوں گھٹا میں
ہلتا ہے سرِ گنبدِ مینا مرے آگے

آتی ہے دلہن بن کے، مشیّت کی جِلو میں
آوارگئ آدم و حوّا مرے آگے

پیمانے پہ جس وقت جھکاتا ہوں صراحی
جھکتا ہے سرِ عالمِ بالا مرے آگے

پہلو میں ہے اک زہرہ جبیں، ہاتھ میں ساغر
اس وقت نہ دنیا ہے نہ عقبیٰ مرے آگے

جوش اٹھتی ہے دشمن کی نظر جب مری جانب
کھلتا ہے محبت کا دریچا مرے آگے

(جوش ملیح آبادی)

No comments:

Post a Comment