اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھرمیں نے بھی یارو چھیڑ دی اک سرد جنگ پھرلایا گیا ہوں پھر سے سرِمقتلِ حیاتہونے لگا بدن سے جدا انگ انگ پھرثابت ہوا کہ تو بھی نہیں مستقل علاجلگنے لگا ہے روح کے ملبے کو زنگ پھریوں لامکاں تو اپنا ستارہ کبھی نہ تھایہ کیا ہوا کہ کٹ گئی اپنی پتنگ پھرپیاسے لبوں کو یا تو سمندر نصیب کریا ہو عطا علاقۂ پر خشت و سنگ پھرجب تو فصیلِ شب سے پکارے گا رات بھرتب میں فصیلِ جاں سے اُتاروں گا زنگ پھرإس بار تو خدا کی قسم کچھ نہیں کہاکیوں اُڑ گیا جناب کے چہرے کا رنگ پھر
No comments:
Post a Comment