Sunday 31 March 2013

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے


ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

یا رب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

گو بحث کر کے بات بٹھائی پہ کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے

اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

مستِ شرابِ عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے

(میر درد)

No comments:

Post a Comment