Wednesday 6 March 2013

یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب


یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں، برباد سب

سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب

بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب

سب کو دعوائے وفا، سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں اُستاد سب

شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب

چار لفظوں میں کہو، جو بھی کہو
اُس کو کب فرصت سُنے فریاد سب

تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہم پہ جو گزری، ہمیں ہے یاد سب

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment