Sunday 31 March 2013

دستیاب عورتیں


یہ دستیاب عورتیں
یہ بے حجاب عورتیں 
جنہوں نے سارے شہر کو
کمالِ عشوہ و ادا سے 
شیوہء جفا نما سے
بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
جانے کون چور راستوں سے 
کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں
کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے
ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری
معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے
کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
زنانِ کوچہء سخن کو اِذن ِ شعر و شاعری
بس ایک دعویِ سخن وری کی دیر ہے کہ پھر
تمام عیش ِ زندگی
قبول ِ عام ۔۔ شہرت ِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
پیش ہوں گے طشتِ خاص و عام میں سجے ہوئے
مگر یہ ہے کہ دعویء سخن وری کے واسطے
کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے
خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر
گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے''
یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم ۔۔۔ ۔۔
زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے
مچل گئیں ۔۔۔ متاع ِ شعر کے حصول کے لیے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے
'' نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض''
نہ پاسبانِ کوچہء سخن کو کچھ خبر ہوئی
نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا
نجانے کب مذاق ِ حسن و عشق 
اپنا منہ چھپا کے سو گیا
کمال ِ فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا
یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا
اور اب جدھر بھی دیکھئے
ہیں بے حساب عورتیں
ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
شب کے سارے راستوں پہ
دستیاب عورتیں

(ثمینہ راجہ)

No comments:

Post a Comment