Wednesday 20 March 2013

گدازِ دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا



گدازِ دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا

نویدِ عیش سے اے دل ذرا ہشیار ہو جانا
کسی تازہ مصیبت کے لئے تیار ہو جانا

وہ اُن کے دل میں شوقِ خود نمائی کا خیال آنا
وہ ہر شے کا تبسم کے لئے تیار ہو جانا

مزاجِ حُسن کو اب بھی نہ سمجھو تو قیامت ہے
ہمارا اور وفا کے نام سے بیزار ہو جانا

سحر کا اُس طرف انگڑائی لینا دلفریبی سے
اِدھر شاعر کے محسوسات کا بیدار ہو جانا

توسّل سے ترے دل میں بھروں گا قوتیں برقی
ذرا میری طرف بھی اے نگاہِ یار ہو جانا

وہ آرایش میں سب قوت کسی کا صرف کر دینا
تحمل میں وہ ہر کوشش مری بیکار ہو جانا

معاذ اللہ اب یہ رنگ ہے دنیا کی محفل کا
خدا کا نام لینا اور ذلیل و خوار ہو جانا

رگوں سے خون سارا زہر بن کر پھوٹ نکلے گا
ذرا اے جوش ضبطِ شوق سے ہشیار ہو جانا

(جوش ملیح آبادی)

No comments:

Post a Comment