Monday 4 March 2013

غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے


غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی!
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہلِ دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے

مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
مِلے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رُخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رُخ اُٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اُٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دل کی خبریں، مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو اُن سے رُوٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جانِ ہستی
جو زبان پر نہ آئے، جو کلام تک نہ پہنچے

شکیل بدایونی

No comments:

Post a Comment