Monday 4 March 2013

کراہتے ہوئے دِل




مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور
یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں
نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہو گا
کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے
کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہو گا
جلائی ہوں گی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں
کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہو گا
کِسی کو ذہن کا چھوٹا سا تازیانہ بہت
کسی کو دل کی کشاکش کا حوصلہ ہو گا
نہ جانے کِتنے ارادے اُبھر رہے ہوں گے
نہ جانے کِتنے خیالوں کا دل بڑھا ہو گا
تمھاری پُھول سی فطرت کی سِطح نرم سے دُور
پہاڑ ہوں گے ، سمندر کا راستہ ہو گا

یہ ایک فرض کا ماحَول ، فرض کا سنگیت
یہ اسپتال کے آنسُو ، یہ اسپتال کی رِیت
مرے قریب بہت سے مریض اور بھی ہیں
پُکارتی ہُوئی آنکھیں ، کراہتے ہُوے دِل
بہت عزیز ہے اِن سب کو زندگی اپنی
"یہ اپنی زیست کا احساس کیسی نعمت ہے "

مگر مجھے یہی الجھن کہ زندگی کی یہ بھیک
جو مِل گئی بھی تو کِتنی ذرا سی بات مِلی
کِسی کے ہات مہتاب آگیا بھی تو کیا
کسی کے قدموں میں سُورج کا سرجُھکا بھی تو کیا
ہُوا ہی کیا جو یہ چھوٹی سی کائنات مِلی ؟
مرے وجُود کی گہری ، خموش ویرانی
تمھیں یہاں کے انّدھیرے کا عِلم کیا ہو گا
تمھیں تو صرف مقّدر سے چاند رات مِلی

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment