Saturday 16 March 2013

تیری زلفِ سیہ کے تاروں کا


تیری زلفِ سیہ کے تاروں کا
ورد ہے صبح و شام ماروں کا

مثلِ سیماب ہم کوں نہیں آرام
پوچھ آ حال بے قراروں کا

سوزِدل کی گھٹا ہے آنکھوں میں
مہ برسنے لگا انگاروں کا

اشکِ گرم آگ ہو نکلتا ہے
نہیں پلک جھاڑ ہے ستاروں کا

گلبدن کے فراق میں ہر شب
دل ہے آماج غم کے خاروں کا

گلِ عارض دکھا کہ گلشن میں
ہوش کھویا ہے کئی ہزاروں کا 

ہجر کی رات میں شمار نہیں
اے سراج اشک کی قطاروں کا

سراج اورنگ آبادی

No comments:

Post a Comment