Wednesday 20 March 2013

نگاہِ ساقیِ نامہرباں


نگاہِ ساقیِ نامہرباں یہ کیا جانے
کہ ٹوٹ جاتے ہیں خود دل کے ساتھ پیمانے

ملی جب ان سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں
ہٹی نگاہ تو چاروں طرف تھے ویرانے

حیات لغزشِ پیہم کا نام ہے ساقی
لبوں سے جام لگا بھی سکوں، خدا جانے

تبسموں نے نکھارا ہے کچھ تو ساقی کے
کچھ اہلِ غم کے سنوارے ہوئے ہیں میخانے

یہ آگ اور نہیں، دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھیں گے پروانے

فریبِ ساقیِ محفل، نہ پوچھیے مجروح
شراب ایک ہے، بدلے ہوئے ہیں پیمانے

(مجروح سلطانپوری)

No comments:

Post a Comment