Saturday 16 March 2013

کافرِ عشق ہوں میں


کافرِ عشق ہوں میں بندۂ اسلام نہیں
بت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں

عشق میں پوجھتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اُس کے بن آرام نہیں

ڈھونڈھتا ہے تو کدھر یار کو میرے اے ماہ
منزلش در دلِ ماہست لبِ بام نہیں

بوالہوس عشق کو تو خانۂ خالہ مت بوجھ
اُس کا آغاز تو آساں ہے پہ انجام نہیں

پھانسنے کو دلِ عشاق کے الفت بس ہے
گھیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں

کام ہو جائے تمام اُس کا پڑے جس پہ نگاہ
کشتۂ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں

ابر ہے جام ہے مینا ہے مئے گلگوں ہے
ہے سب اسبابِ طرب ساقیِ گلفام نہیں

ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصلِ بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں

جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسمِ گل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں

دل کے لینے ہی تلک مہر کی تھی ہم پہ نگاہ
پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں

رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز
یہ دل آزاری مری جان بھلا کام نہیں

(حضرت شاہ نیاز بریلوی)

No comments:

Post a Comment