Saturday 2 March 2013

خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی


خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی
اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحہ عیش
مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدہء دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا
مجھے یہ ضد کہ مداوہ نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا 
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی

No comments:

Post a Comment