Monday 4 March 2013

وہ جو رموزِ عشق ہیں کون سمجھ سکا کہ یوں


وہ جو رموزِ عشق ہیں کون سمجھ سکا کہ یوں
ناخنِ عقل سے کبھی عقدہ نہیں کھلا کہ یوں

مانا کہ مصلحت تھی کچھ تم نے اگر کہا کہ یوں
وقت کرے گا فیصلہ یوں تھا درست یا کہ یوں

اپنی خطا ہے بس یہی ہم نے منافقت نہ کی
جو بھی ہمارے دل میں تھا کہہ دیا برملا کہ یوں

تو نے لوح فکر سے ماضی کھرچ دیا تمام
میں بھی تجھے بھلا سکوں کوئی عمل بتا کہ یوں

میں نے کہا کہ بن ترے کیسے کٹے گی زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں

پرسشِ حال دل پہ جب ہم نہ جواب دے سکے
چہرہ زبان بن گیا سب نے سمجھ لیا کہ یوں

تم پہ کیا جو اعتماد اپنا یہی قصور تھا
اس سے زیادہ اور اب تم سے کہیں تو کیا کہ یوں

شرحِ نشاطِ وصل پہ دونوں کا کھل گیا بھرم
میں نے اسے کہا کہ یوں اس نے مجھے کہا کہ یوں

پہلے نہ ہم سمجھ سکے لوگ بنے تھے دوست کیوں
وقت وہ جب گزر گیا پھر یہ پتا چلا کہ یوں

جاننا چاہتے تھے ہم' لوگوں کی وجہِ بے حسی
خود ہی جواب مل گیا دیکھا کہ آئینہ کہ یوں

زعمِ خدائی تھا جنہیں ان کو کیا تھا غرقِ آب
آج کے ظالموں کا بھی حشر ہمیں دکھا کہ یوں

مرتضیٰ برلاس


No comments:

Post a Comment