Monday 18 March 2013

چراغ آخر شب



ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغ آخر شب 
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی 
کہ جیسے تند اندھیروں کی راہ میں جگنو 
ذرا سی دیر کو چمکے چمک کے کھو جاے 

پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھہ سجھائی دے 
نہ شب کٹے ....... نہ سراغ سحر دکھائی دے 

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پس............ غبار سفر 
اگر چلے بھی تو بس اتنی سی راہ طے ہو گی 
کہ جیسے تیز ہواؤں کی زد میں نقش قدم ....
ذرا سی دیر کو ابھرے ابھر کے مٹ جاے 
پھر اس کے بعد نہ منزل نہ رہگزار ملے 
حد نگاہ تلک.......... دشت بے کنار ملے 

ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی در میں ہم 
قبیلہ دل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں 
بسے بساے ہوۓ شہر اپنی آنکھوں کے 
مثال خانہ ویران اجڑنے...... والے ہیں 
ہوا کا شور یہی ہے تو ..... دیکھتے رہنا 
ہماری عمر کے خیمے اکھڑنے والے ہیں 

اب اس کے بعد تمھارے لئے ہیں رنگ سبھی 
سبھی رتیں سبھی موسم تمھیں سے مہکیں گے 
ہر ایک لوح زماں پر تمھارے نام کی مہر ..
ہر ایک صبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گزار ..
طلوع مہر درخشاں.............. فروغ ماہ تمام 
یہ رنگ و نور کی بارش تمھارے عہد کے نام 

اب اس کے بعد یہ ہو گا..... کہ تم پہ ہونا ہے 
ورود نعمت عظمیٰ ہو یا نزول ..........عذاب 
تمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے 
دلوں کی زخم شماری ...... غم جہاں کا حساب 
گناہ وصل کی لذت کہ ہجرتوں ....کا ثواب 
تمام نقش............. تمھیں کو سنوارنا ہوں گے 
رگوں میں زہر کے نشتر ... اتارنا ہوں گے 

اب اس طرح ہے کہ گزرے دنوں کے ورثے میں 
تمہاری نظر ہیں ٹکڑے ........شکستہ خوابوں کے 
جلے ہوۓ............. کئی خیمے دریدہ ...پیراہن 
بجھے چراغ ،لہو انگلیاں ................فگار بدن 
یتیم لفظ ، ردا سوختہ .... انا ...... کی تھکن 
تمھیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے 
عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ..ہوں گے 

وہ یوں بھی ہے کہ اگر حوصلے سلامت ہوں 
بہت کٹھن بھی نہی راہ گزار ... دشت جنوں 
یہی ........... کہ آبلہ سے سے جی نہ اکتاے 
جراہتوں .... کی مشقت سے دل نہ گھبراے ..
رگوں سے درد کا سیماب اس طرح پھوٹے 
نشاط کرب کا عالم ........فضا میں طاری ہو 
کبھی جو طبل بجے ... مقتل حیات سجے ...
تو ہر........... قدم پہ لہو کی سبیل جاری ہو 

جو یوں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر 
بہ فیض کم نظری .......داغ بیشمار سہی 
ادھر یہ حال کہ موسم خراج مانگتا ہے ...
ادہر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجل 
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسوں کی چمک 
جو کچھہ نہی تو یہی رسم روزگار سہی 
نہ ہو نصیب رگ گل تو نوک خار ..........سہی 

جو ہو سکے تو گریباں کے تار سی لینا 
وگرنہ تم بھی ہماری طرح سے جی لینا 

( محسن نقوی )

No comments:

Post a Comment