سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سناشہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سنامصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سناآثار اب یہ ہیں کہ گریبان شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سنااہل ستم سے معرکہ آرا ہے اک ہجوم
جس کو نہیں ملا کوئی سردار کچھ سناخونیں دِلان مرحلہ امتحاں نے آج
کیا تمکنت دکھائی سرِ وار کچھ سناکیا لوگ تھے کہ رنگ بچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ خون کی رفتار کچھ سنا
No comments:
Post a Comment