محبت کو بُھلانا چاہیے تھامجھے جی کر دکھانا چاہیے تھامجھے تو ساتھ بھی اُس کا بہت تھااُسے سارا زمانہ چاہیے تھاتم اُس کے بن ادُھورے ہو گئے ہوتمہیں اُس کو بتانا چاہیے تھاچراغاں ہو رہا تھا شہر بھر میںمجھے بھی دل جلانا چاہیے تھاسُنو یہ خامشی اچھی نہیں تھیہمیں محشر اُٹھانا چاہیے تھامحبت کا تقاضا تھا اگر یہمجھے ہر غم چھُپانا چاہیے تھایہ ایسے ہار کیوں مانی تھی تم نے؟مقدر آزمانا چاہیے تھایہ آنسُو ہیں علامت بزدلی کیدُکھوں میں مُسکرانا چاہیے تھاعاطف سعید
No comments:
Post a Comment