Sunday 31 March 2013

محبت کو بُھلانا چاہیے تھا


محبت کو بُھلانا چاہیے تھا
مجھے جی کر دکھانا چاہیے تھا

مجھے تو ساتھ بھی اُس کا بہت تھا
اُسے سارا زمانہ چاہیے تھا

تم اُس کے بن ادُھورے ہو گئے ہو
تمہیں اُس کو بتانا چاہیے تھا

چراغاں ہو رہا تھا شہر بھر میں
مجھے بھی دل جلانا چاہیے تھا

سُنو یہ خامشی اچھی نہیں تھی
ہمیں محشر اُٹھانا چاہیے تھا

محبت کا تقاضا تھا اگر یہ
مجھے ہر غم چھُپانا چاہیے تھا

یہ ایسے ہار کیوں مانی تھی تم نے؟
مقدر آزمانا چاہیے تھا

یہ آنسُو ہیں علامت بزدلی کی
دُکھوں میں مُسکرانا چاہیے تھا

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment