Sunday 31 March 2013

انشاء جی



انشاء جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے تم تنہا ہو
یہ جوگ بے جوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورپ میں کبھی پچھم میں
تم پرواہ ہو تم پچھواہ ہو
جو نگری نگری بھٹکائے ہے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دکھیا ہو
کیا تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایہ ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بھگیا کا بیلا ہو
تم کس ساغر کی لہر بھلا
تم کس بادل کی برکھا ہو
تم کس پونم کا اجیارہ
کس اندھی رین کی اوشا ہو
تم کن ہاتھوں کی مہندی ہو
تم کس ماتھے کا ٹیکہ ہو
کیوں شہر تجا کیوں جوگ لیا
کیوں وحشی ہو کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں روپ نیا
ہم کیا جانے تم کیا کیا ہو
جب سورج ڈوبے سانج بہئے
اور پھیل رہا اندھیارہ ہو
کس ساز کی لحہ پر چھنن چھنن
کس گیت کا مکھڑا جاگا ہو
اس تال پہ ناچتے پیڑوں میں
اک چپ چپ ندیا بہتی ہو
ہوچاروں اوٹ سگہن بسی
یوں جنگل پہنا گجرا ہو
یہ عنبر کے مکھ کا آنچل
اس آنچل کا رنگ اودھا ہو
ایک گوٹ دو پیلے تاروں کی
اور بیچ سنہرا چندا ہو
اس سندر شیتل شام سمے
ہاں بولو بولو پھر کیا ہو
وہ جس کا ملنا ناممکن
وہ مل جائے تو کیسا ہو

No comments:

Post a Comment