جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے!میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھاکوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سےنعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو!مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سےجان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پربھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سےوہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھااُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟شہر میں پرورشِرسمِ جنوں کون کرے؟یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کوکوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سےجن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگلُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سےلوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیںتِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سےجانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سےجن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔنبختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے!
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment