Monday 4 March 2013

ابھی تو پر بھی نہیں تولتا اڑان کو میں


ابھی تو پر بھی نہیں تولتا اڑان کو میں
بلا جواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں
مفاہمت نہ سکھا دشمنوں سے اے سالار
تری طرف نہ کہیں موڑ دوں کمان کو میں
مری طلب کی کوئی چیز شش جہت میں نہیں
ہزار چھان چکا ہوں تری دکان کو میں
نہیں قبول مجھے کوئی بھی نئی ہجرت
کٹاﺅں کیوں کسی بلوے میں خاندان کو میں
تجھے نخیلِ فلک سے پٹخ نہ دوں آخر
ترے سمیت گرا ہی نہ دوں مچان کو میں
یہ کائنات مرے سامنے ہے مثلِ بساط
کہیں جنوں میں الٹ دوں نہ اس جہان کو میں
جسے پہنچ نہیں سکتا فلاسفہ کا شعور
یقیں کے ساتھ ملاتا ہوں اس گمان کو میں
اختر عثمان

No comments:

Post a Comment