Monday 25 March 2013

جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا


جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اُس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

کاو کاوِ مژۂ یار و دلِ زار و نِزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا

وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دِکھایا نہ گیا

گرم رو راہ فنا کا ہو نہیں سکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا

پاسِ ناموسِ محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اُٹھایا نہ گیا

خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دلِ گُمشدہ پایا نہ گیا

آتشِ تیز جدائی میں یکا یک اُس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا

مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اُسے
پھر وہ تا صُبح مرے جی سے بھُلایا نہ گیا

زیرِ شمشیرِ ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا

No comments:

Post a Comment