Wednesday 20 March 2013

ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے


ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اِک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

عکس پانی میں محبت کے اُتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے ، دریا کے کنارے ہوتے

جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے

کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے

آپ تو آپ ہیں، خالق بھی ہمارا ہوتا
ہم ضرُورت میں کِسی کو نہ پکارے ہوتے

ساتھ احباب کے حاسد بھی ضرُوری ہیں عدیم
ہم سخن اپنا سُناتے، جہاں سارے ہوتے

نذرِ داغ

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment