Wednesday 20 March 2013

محاورہ مابین خدا و انسان - نظمِ اقبال مع ترجمہ


خدا

جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔

من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔

تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
تو نے اس (فولاد) سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔

انسان

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔

بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
تو نے جنگل، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔

علامہ محمد اقبال - پیامِ مشرق

No comments:

Post a Comment