Wednesday 20 March 2013

مسجدِ زیست میں اک عمر جبیں سائی کی


مسجدِ زیست میں اک عمر جبیں سائی کی
مرحبا کس نے کہا، کس نے پذیرائی کی؟

مُڑ کے دیکھا، نہ کبھی زحمتِ گویائی کی
واہ کیا بات ہے اُس پیکرِ رعنائی کی

کچھ نے شاعر کہا اور کچھ نے کہا دیوانہ
یہ ملی ہم کو سزا تجھ سے شناسائی کی

'کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق'
یوں تو کرتے ہیں سبھی بات شکیبائی کی

لوگ تو بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
ورنہ اوقات ہی کیا تیرے تمنائی کی؟

شامِ حرماں، شبِ غم، صبحِ الم، روزِ امید
حد بھی ہوتی ہے کوئی قافیہ پیمائی کی

دولتِ زخمِ جگر، حشمتِ آلامِ وفا
کوئی دیکھے تو فقیری ترے سودائی کی

ایک سایہ تھا، گزرگاہِ نظر تھی، میں تھا
مجھ سے پوچھے کوئی لذت شبِ تنہائی کی

انگلیاں اٹھتی ہیں ہر گاہ زمانے بھر میں
داد اچھی ملی سرورؔ تجھے خود رائی کی

(سرور عالم راز سرورؔ)

No comments:

Post a Comment