Wednesday 20 March 2013

اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے


اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے
سب لوگ اُس کے دل کے طلبگار ہو گئے

اُس نے کہا کہ ایک حسیں چاہیے مجھے
سارے ہی لوگ زینتِ بازار ہو گئے

اُس نے کہا کہ صاحبِ کردار ہے کوئی
اِک پل میں لوگ صاحبِ کردار ہو گئے

اُس نے کہا کہ مجھے مِری تعمیر چاہیے
جو خشت وسنگ بار تھے ، معمار ہو گئے

اُس نے کہا، یہاں پہ کوئی باخبر بھی ہے
جو بے خبر تھے وہ بھی خبردار ہو گئے

اُس نے کہا کہ طالبِ دیدار ہے کوئی
اندھے بھی اُس کے طالب ِدیدار ہو گئے

اُس نے کہا، کسی کو مرا وصل چاہیے
اِنکار کے حرُوف بھی اِقرار ہو گئے

اُس نے کہا کہ قافلۂ سالار ہے کوئی
سارے ہی لوگ قافلۂ سالار ہو گئے

اُس نے کہا، ذرا سا مجھے حُسن چاہیے
سارے ہی شہر ،حسن کے بازار ہو گئے

اُس نے کہا کہ تیزیٴ رفتار ہے کہیں
کچھوے، عدیم صاحب رفتار ہو گئے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment