Sunday 10 March 2013

ہستی ہے جب تک ہم ہیں اسی اضطراب میں


ہستی ہے جب تک ہم ہیں اسی اضطراب میں
جوں موج آ پھنسے ہیں عجب پیچ و تاب میں

نے خانۂ خدا ہے نہ ہے یہ بتوں کا گھر
رہتا ہے کون اس دلِ خانہ خراب میں

آئینۂ عدم ہی میں ہستی ہے جلوہ گر
ہے موج زن تمام یہ دریا سراب میں

غافل جہاں کی دید کو مفتِ نظر سمجھ
پھر دیکھنا نہیں ہے اس عالم کو خواب میں

ہر جز کو کُل کے ساتھ بمعنی ہے اتصال
دریا سے دُر جدا ہے پہ ہے غرق آب میں

پیری نے ملکِ تن کو اجاڑا وگرنہ یاں
تھا بندوبست اور ہی عہدِ شباب میں

میں اور درد مجھ سے خریداریِ بتاں
ہے ایک دل بساط میں سو کس حساب میں

(خواجہ میر درد)

No comments:

Post a Comment