سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے ، پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی !
عجب ایک عرصہِ درد ہے ، نہ گمان ہے نہ خبر کوئی !
نہیں اب تو کوئی ملال بھی ، کسی واپسی کا خیال بھی ...
غمِ بے کسی نے مٹادیا مرے دل میں تھا بھی اگر کوئی !
تجھے کیا خبر ہے کہ رات بھر تجھے دیکھ پانے کو اِک نظر ...
رہا ساتھ چاند کے منتظر تری کھڑکیوں سے اُدھر کوئی !
سرِ شاخِ جاں ترے نام کا عجب ایک تازہ گلاب تھا ...
جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی !
تری بے رُخی کے دیار میں، گھنی تیرگی کے حصار میں ...
جلے کس طرح سے چراغِ جاں , کرے کس طرف کو سفر کوئی !
کٹے وقت چاہے عذاب میں، کِسی خواب میں یا سراب میں ....
جو نظر سے دُور نکل گیا ، اُسے یاد کرتا ہے ہر کوئی !
سرِ بزم جتنے چراغ تھے وہ تمام رمز شناس تھے ...
تری چشمِ خوش کے لحاظ سے نہیں بولتا تھا مگر کوئی !!
No comments:
Post a Comment