Monday 18 March 2013




چاک ِ گَرداں کو گُھماتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 
کُوزہ گَر کُوزے بناتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

اپنی ہی آگ میں جَل کر کسی قَقنُس کی طرح 
اہل ِ ْ دِل دُھونی رُماتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

آہ بھی کرتے نہیں ہیں تِرے خاموش مزاج 
سب کو حیرانی جَتاے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

وہ تو مُوسیٰ تھے کہ جو زندہ سلامت آئے 
لوگ اُس طُور پَہ جاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

اِس محبّت کے سَمُندر میں اُترنے والے 
دُور سے ہاتھ ہِلاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

نہیں اُٹھتا ہے کسی طَور بھی یہ بار ِ گراں 
ہم تو احسان اُٹھاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

اِن مریضان ِ محبّت کا بھی کچھ ٹھیک نہیں 
قِصّہ ء درد سُناتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

کچھ تو مَر کے بھی سدا زندہ کہاتے ہیں میاں ! 
اَور کچھ زندہ کہاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

اُن کو مُردہ نہ کہو ' اَصل میں زندہ ہیں وہ 
کہ جو اَوروں کو بچاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

کیا کہُوں کتنے نڈر لوگ ہیں یہ اہل ِ وفا 
مَوت کو سینے لگاتے ہُوئے مَر جاتے ہیں 

کتنے خُوش بَخت ہیں ہم اہل ِ طریقت ' ساحِر ! 
اپنے مُرشِد کو مناتے ہُوئے مَر جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment