اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناکمژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سےواعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوشآیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیارویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا
احوال اس شکارِ زبوں کا ہے جائے رحمجس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا
منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئےشب ہم کو میرؔ پرتوِ مہتاب لے گیا
(میر تقی میر)
No comments:
Post a Comment