Wednesday 20 March 2013

اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا



اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا

قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا



کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا



آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا



نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا



میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا



احوال اس شکارِ زبوں کا ہے جائے رحم
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا



منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے 
شب ہم کو میرؔ پرتوِ مہتاب لے گیا



(میر تقی میر)

No comments:

Post a Comment