Wednesday 20 March 2013

کبھی قاتِل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے


کبھی قاتِل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے
ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے

چھیڑیے قصۂ اغیار ہی ، ہم سُن لیں گے
کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی ہے

یادِ ماضی ہے کہ نیزے کی اَنّی، کیا کہئے؟
ذہن میں ایسی چُبھن ، ایسی چُبھن ہوتی ہے

پُھول کِھلتے ہی چمن آنکھ سے اوجھل ہو کر
ڈھونڈتا ہے اُسے، جو رشکِ چمن ہوتی ہے

کتنی ہی زہر میں ڈوبی ہوئی رکھتی ہو زباں
پھر بھی وہ نازشِ گل، غنچہ دہن ہوتی ہے

ابنِ صفی

No comments:

Post a Comment