Monday 4 March 2013

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے


کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے 
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر 
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے 
جو ہم سے دور تھے 
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔ ۔۔امی!
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے‘ جگنوؤں کے دیس جانا ہے 
ہمیں رنگوں کے جگنو‘ روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ 
کھڑکی سے بلاتی ہے 
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو

احمد شمیم

No comments:

Post a Comment