Sunday 31 March 2013

شاعری سچ بولتی ہے


شاعری سچ بولتی ہے

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے 
شاعری سچ بولتی ہے

تیرا اصرار کہ چاہت مری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے مرا حلقۂ احباب نہ ہو

تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

یہ بھی کیا بات کہ چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں

جب کسی بات کو دنیا کی نظر تولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

میں نے اس فکر میں کاٹیں کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں ترا نام نہ آے لیکن

جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

تیرے جلووں کا ہے پر تو میری اک ایک غزل
تو میرے جسم کا سایا ہے تو کترا کے نہ چل

پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

(قتیل شفائی)

No comments:

Post a Comment