Wednesday 6 March 2013

جنہیں خوابوں سے اِنکاری بہت ہے


جنہیں خوابوں سے اِنکاری بہت ہے
اُن آنکھوں میں بھی بیداری بہت ہے

نہایت خُوبصورت ہے وہ چہرہ
مگر جذبات سے عاری بہت ہے

اُسے میں یاد رکھنا چاہتا ہوں
مگر اِس میں بھی دُشواری بہت ہے

سبَب ہو کوئی تو بتلائیں بھی ہم
کہ گِریہ رات سے طاری بہت ہے

بہت مصرُوفیت کی جَا ہے دُنیا
مگر لوگوں میں بےکاری بہت ہے

مجھے بھی مہلتِ یک دو نفس دے
مجھے بھی زندگی پیاری بہت ہے

اِدھر اعضاء بکھرتے جا رہے ہیں
اُدھر دشمن کی تیاری بہت ہے

یہی نانِ جویں محنت ہے میری
اِسی محنت میں سرشاری بہت ہے

اِسی مٹی میں ہیں افلاک میرے
اِسی میں خوئے سرداری بہت ہے

اِنہی لوگوں میں ہیں کچھ لوگ میرے
مرے لوگوں میں خُودداری بہت ہے

سُخن کا بوجھ کیسے اُٹھ سکے گا
جو پتھر ہے یہاں، بھاری بہت ہے

مرے ساحل سمندر روکتے ہیں
سلیم اِتنی وفاداری بہت ہے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment