Sunday 31 March 2013

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے


تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے

کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے

(فیض احمد فیض)

No comments:

Post a Comment