Wednesday 6 March 2013

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا


میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

برس کے کُھل گئے آنسو، نِتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا

کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا، اک امانت ہے
مِری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا

جو پَر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کُھلے تھے پر تو مِرا آسمان تھا سارا

وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں
مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اُس کو گر نہ پھنکارا

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment