Sunday 28 April 2013

صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی



صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی
خاک اڑانی ہے تو پھر کوئی بھی ویرانہ سہی
زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنی مشرب رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی ایک دل دیوانہ سہی
اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایما نہ سہی تیرا اشارہ نہ سہی
زندگی فرش قدم بن کے بچھی جاتی ہے
اے جنوں اور بھی اک لغزش مستانہ سہی
یہ ہواہیں یہ گھٹاہیں یہ فضاہیں یہ بہار
محتسب آج تو شغل مے و پیمانہ سہی
حسن خود پردہ کشاے رخ مقصود تو ہے
عشق کو حوصلہ و عرض و تمنا نہ سہی
کون ایسا ہے یہاں عشق جس کا ہے بے لاگ
آپ کی جان سے دور آپ کا دیوانہ سہی
زندگی آج بھی دلکش ہے انھیں کے دم سے
زندگی خواب سہی عشق اک فسانہ سہی
تشنہ لب ہاتھ پہ کیوں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
کچھ نہیں ہے تو شکست خم و خم خانہ سہی
میں نہ زاہد سے ہوں شرمندہ نہ صوفی سے جگر
مسلک عشق مرا مسلک رندانہ سہی
(جگر مراد آبادی)

اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں


اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غمِ محبت ! تجھ کو گلے لگائیں

بیٹھا ہوں مست و بےخُود، خاموش ہیں فضائیں
کانوں میں آ رہی ہیں بُھولی ہوئی صدائیں

سب اُن پہ ہیں تصدّق، وہ سامنے تو آئیں
اشکوں کی آرزُوئیں، آنکھوں کی اِلتجائیں

عُشاق پا رہے ہیں ہر جُرم پر سزائیں
انعام بٹ رہے ہیں، مغرُور ہیں خطائیں

اُس سے بھی شوخ تر ہیں، اُس شوخ کی ادائیں
کر جائیں کام اپنا، لیکن نظر نہ آئیں

مسجد میں معتکف ہیں بےکار ہی تو زاہد
دو روزہ زندگی ہے، آئیں، پِئیں، پِلائیں

اُس حُسنِ برق وش کے دل سوختہ وہی ہیں
شعلوں سے بھی جو کھیلیں، دامن کو بھی بچائیں

عاشق خرابِ ہستی، زاہد خرابِ تمکیں
آتی ہیں میرے دل سے لب تک وہی دُعائیں

اِک جامِ آخری تو پینا ہے اور ساقی
اب دستِ شوق کانپے یا پاؤں لڑکھڑائیں

اب ہاتھ مل رہے ہیں، وہ خاکِ عاشقاں پر
برباد کر چکے جب اپنی ہی کچھ ادائیں

آلوُدہ خاک ہی تُو رہنے دے اُس کو ناصح
دامن اگر جھٹک دُوں، جلوے کہاں سمائیں

بیتابئ محبت، وجہِ سُکونِ غم ہے
آغوشِ مُضطرب میں خوابیدہ ہیں بلائیں

اشعار بن کے نکلیں جو سینۂ جِگر سے
سب حسنِ یار کی تھیں، بےساختہ ادائیں

جِگر مُراد آبادی

وہ در کھلا میرے غمکدے کا



وہ در کھلا میرے غمکدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آگئی شام، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
وہ آگئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے
وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے
وہ دوپہر آئی آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے
یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے
پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے
خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم وگماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے
بیروت 80 ؁

سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو

سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو
گزر گئی ہے شبِ غم، سحر کی بات کرو

دلوں کا ذکر ہی کیا ہے، ملیں، ملیں، نہ ملیں
نظر ملاؤ، نظر سے نظر کی بات کرو

شگفتہ ہو نہ سکے گی فضائے ارض و سما
کسی کی جلوہ گہِ بام و در کی بات کرو

حریمِ ناز کی خلوت میں دسترس ہے کسے
نظارہ ہائے سرِ رہ گزر کی بات کرو

بدل نہ جائے کہیں التفاتِ حُسن کا رنگ
حلاوتِ نگہِ مختصر کی بات کرو

جہانِ ہوش و خرد کے معاملے ہیں دراز
کسی کے گیسوئے آشُفتہ سر کی بات کرو

نگاہِ ناز ہے ایک کائناتِ راز و نیاز
جدھر کرے وہ اشارہ، اُدھر کی بات کرو

سرورِ زیست ہُوا جس کے دم قدم سے نصیب
اُسی ندیم، اُسی ہم سفر کی بات کرو

وہ جس سے تلخیِ زہرابِ غم گوارا ہے
اسی تبسّمِ شیریں اثر کی بات کرو

اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی،



اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے

سلیم کوثر

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا



چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا

خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا

ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا

تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا

پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک
چادر نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلا

کیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا

سلیم کوثر

تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے


تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے
تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے

تیرا اس کے ماننے والوں سے پالا پڑ گیا
جو پرندے بھیج کر لشکر کے لشکر مار دے

تم بھی موسیٰ کے تعاقب میں چلے تو آئے ہو
دیکھنا تم کو نہ یہ نیلا سمندر مار دے

تو نے جس کے ڈھونڈنے کو بھیج دی اتنی سپاہ
یہ نہ ہو وہ تجھ کو تیرے گھر کے اندر مار دے

اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے

فیصلے تاریخ کے، میدان میں ہوتے نہیں
مارنے والو! کوئی تم کو نہ مر کر مار دے

روشنی کے واسطے پندار کا سودا نہ کر
سامنے سورج بھی ہے تو اس کو ٹھوکر مار دے

گونج تو بھی اس کے لہجے میں پہاڑوں کی طرح
تابش اس کی بات تو بھی اس کے منہ پر مار دے

روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا


روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا
ورنہ اٹھنا محفلِ ہستی سے کچھ مشکل نہ تھا

چار آنکھیں ہوتے ہی قابو میں گویا دل نہ تھا
کہہ گذرنا ورنہ حالِ ہجر کچھ مشکل نہ تھا

سننے والے میرا قصہ سن کے یوں دیتے ہیں داد
یا تو یہ زندہ نہ تھا یا پاس اس کے دل نہ تھا

یہ رموزِ جذب ہیں مجنوں سے پوچھا چاہیے
باطنِ محمل کا شاہد پردۂ محمل نہ تھا

قتل گہ کی سیر سے قاتل چلا ہے یوں اداس
جیسے مرضی کے موافق کوئی بھی بسمل نہ تھا

طور پر موسیٰ کو بلوایا پئے دیدارِ حُسن
کون کہتا ہے کہ انساں جوہرِ قابل نہ تھا

بیٹھے جتنی دیر بالیں پر ہنسی آتی رہی
دل لگی تھی آپ کے نزدیک دردِ دل نہ تھا

دردِ باطن سے دہانِ زخم جو کچھ کہہ اٹھے
شکوۂ تقدیر تھا وہ شکوۂ قاتل نہ تھا

ایک ہی نالے کی قوت سے خدائی ہل گئی
اضطرابِ ہجر میں روحِ اثر تھا دل نہ تھا

زندگی بھر کی ریاضت تھا دلِ محشر ضرور
پھر بھی او ظالم نگاہِ ناز کے قابل نہ تھا

(مرزا کاظم حسین محشر لکھنوی)

آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے


آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے

کچھ رنگ تو ابھرے تری گل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینہء ایام سے اترے

ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہہ و بالا
وہ زینہ بہ زینہ بڑے آرام سے اترے

جب تک ترے قدموں میں فروکش ہیں سبو کش
ساقی خطِ بادہ نہ لبِ جام سے اترے

بے طمع نوازش بھی نہیں سنگ دلوں کی
شائد وہ مرے گھر بھی کسی کام سے اترے

اوروں کے قصیدے فقط آورد تھے جاناں
جو تجھ پہ کہے شعر وہ الہام سے اترے

اے جانِ فراز اے مرے ہر دکھ کے مسیحا
ہر زہر زمانے کا تیرے نام سے اترے

کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح


کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح
بڑھا کے پیاس میری اُس نے ہاتھ چھوڑ دیا
وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح

کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی 
چھپےگا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح
کبھی نہ سوچا تھا ہم نے قتیل اُس کے لئے
کرے گا ہم پہ ستم وہ بھی ہر کسی کی طرح

مدرسے میں عاشقوں کے جسکی بسم اللہ ہو


مدرسے میں عاشقوں کے جسکی بسم اللہ ہو
اوس کا پہلا ہی سبق یارو فنا فی اللہ ہو
یہ سبق طولانی ایسا ہے کہ آخر ہو ، نہ ہو
بے نہایت کو نہایت کیسی یا ربّاہ ہو
دوسرا پھر ہو سبق علم الفنا کا انتفا
یعنی اس اپنی فنا سے کچھ نہ وہ آگاہ ہو
دوڑ آگے تب چلے جب چوڑ پیچھے ہو مدد
اس دقیقے کو وہی پہنچے جو حق آگاہ ہو
تیسرا اسکا سبق ہے پھر کے آنا اس طرف
اب بقا باللہ حاصل اوسکو خاطرخواہ ہو
ڈھائی انچھر پیم کے مشکل ہے جنکا ربط و ضبط
حافظ و ملّا یہاں پر کب دلیلِ راہ ہو
حضرتِ عشق آپ ہوویں گر مدرّس چند روز
پھر تو علم و فقر کی تعلیم خاطر خواہ ہو
اے نیاز اپنے تو جو کچھ ہو تمہیں ہو بس فقط
حضرتِ عشق آپ ہو اور آپ دام اللہ ہو
اک توجّہ آپکی وافی و کافی ہے ہمیں
کیسا ہی قصہ ہو طولانی تو وہ کوتاہ ہو

میں وہ کوئی ہوں جس کا خدائی میں نام ہے


میں وہ کوئی ہوں جس کا خدائی میں نام ہے
کہتے ہیں جس کو حُسن سو مجھ پر تمام ہے

عالم میں میری جلوہ نمائی کا ہر طرف
غوغا ہے غل ہے شور ہے اور دھوم دھام ہے

خلقت کے کان پُر ہیں اسی ذکر سے ہوئے
ہر ہر زبان پر یہی بات اور کلام ہے

جس دل میں دیکھئے تو ہماری ہی چاہ ہے
جو آنکھ ہے سو تک رہی ہم کو مُدام ہے

ہر سر کے بیچ اپنا ہی سودا ہے بھر رہا
اپنی تڑپ میں ریشہ و رگ ہر کدام ہے

دیکھا ہے جس نے حُسن ہمارا بچشمِ دل
خوبانِ اس جہان سے کب اُس کو کام ہے

حاضر ہے بندگی میں ہماری تمام خلق
از عرش تا بفرش سب اپنا غلام ہے

رکھتا ہے ہم سے ہر کوئی راز و نیاز شیخ
پر ایک نیاز اپنا مدار المہام ہے

(حضرت شاہ نیاز بریلوی)

سجدہ کرکے قدمِ یار پہ قرباں ہونا


سجدہ کرکے قدمِ یار پہ قرباں ہونا
یوں لکھا مری قسمت میں مسلماں ہونا

جس کا مذہب ہو فقط یادِ صنم دیدِ صنم
وہ نہیں جانتا کافر یا مسلماں ہونا

حسن کو پوجنا اور جامِ محبت پینا
مشربِ عشق میں یوں صاحبِ ایماں ہونا

مکتبِ عشق میں "وامق" نے یہ پائی تعلیم
عین ایمان ہے فدائے رُخِ جاناں ہونا

(وامق جونپوری)

رقص وحشت ہنوز طاری ہے


رقص وحشت ہنوز طاری ہے
ہر گلی خوں کی ملمع کاری ہے

سنگ کوئی گراؤ شیشے پر
زندگی پر جمود طاری ہے

بانٹ لیں آؤ درد کے لمحے
ساتھیو وقت غمگساری ہے

یوں تو اجڑی ہے بارہا دھرتی
مگر اب کے یہ ضرب کاری ہے

بڑے دن سے اداس ہے طبیعت
شاید اندر بھی جنگ جاری ہے

قتلِ انساں ہے کہ نہیں تھمتا
رقصِ ابلیس ہے کہ جاری ہے

چین پل بھر سحر نہیں آتا
کیا کہوں کیسی بے قراری ہے

شائستہ سحر

گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ


گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ

بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

خدا جانے ًکہاں سے جلوہء جاناں کہاں تک ہے


خدا جانے ًکہاں سے جلوہء جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے، نظر جس کی جہاں تک ہے

ہم اتنی بھی نہ سمجھے، عقل کھوئی دل گواں بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم مرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک، آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

نیاز و ناز کی روداد، حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب اُن کی ہماری داستاں تک ہے

خیالِ یار نے تو آتے ہی گُم کردیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے

سُنا ہے صوفیوں سے ہم نے اکثر خانقاہوں میں
کہ یہ رنگیں بیانی "بیدم" رنگیں بیاں تک ہے

(بیدم شاہ وارثیؒ)

جب سے لاگے تورے سنگ نین پی


جب سے لاگے تورے سنگ نین پیا
نیند گئی آرام نہیں ساری ساری رین پیا

دکھ آئے سکھ بھاگ گئے
سب عیش مٹا سارا چین پیا

تن من دھن سب تجھ پر واروں
صدقہ حسن حسین پیا

و صل علی کیا شانن ہے
لا مثلک فی الدارین پیا

مہرعلی ہے حب علی اور حب نبی ہے مہر علی
لحمک لحمی ، جسمک جسمی ، فرق نہیں مابین پیا

سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ

اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے



اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

یہ کِس کا تصوّر ہے، یہ کِس کا فسانہ ہے؟
جو اشک ہے آنکھوں میں، تسبیح کا دانہ ہے

دل سنگِ ملامت کا ہرچند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے، دل ہی تو زمانہ ہے

ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی، ہنسنے کو زمانہ ہے

وہ اور وفا دشمن، مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے، آنکھوں کا بہانہ ہے

شاعرہوں میں شاعر ہوں، میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینہ، قدرت مرا شانہ ہے

جو اُن پہ گزرتی ہے، کس نے اُسے جانا ہے؟
اپنی ہی مصیبت ہے، اپنا ہی فسانہ ہے

آغازِ محبت ہے، آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے، آہوں کا زمانہ ہے

آنکھوں میں نمی سی ہے چُپ چُپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

ہم درد بدل نالاں، وہ دست بدل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم، تیرا ہی زمانہ ہے

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا، آج اپنا زمانہ ہے

اے عشق جنوں پیشہ! ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستمگر کو ہنس ہنس کے رُلانا ہے

تھوڑی سی اجازت بھی، اے بزم گہہ ہستی
آ نکلے ہیں، دم بھ کو رونا ہے، رُلانا ہے

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

خود حسن وشباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھئے، تب وہ ہیں، آئینہ ہے، شانا ہے

ہم عشقِ مجسّم ہیں، لب تشنہ ومستسقی
دریا سے طلب کیسی، دریا کو رُلانا ہے

تصویر کے دو رُخ ہیں جاں اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے، اک نقش دِکھانا ہے

یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے

مجھ کو اسی دُھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے، وہ اب آئے، لازم اُنہیں آنا ہے

خوداری و محرومی، محرومی و خوداری
اب دل کو خدا رکھے، اب دل کا زمانہ ہے

اشکوں کے تبسّم میں، آہوں کے ترنّم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے، رہ جائے سو دانا ہے

جگرمرادآبادی

عاشقِ زار ہوں میں طالبِ آرام نہیں


عاشقِ زار ہوں میں طالبِ آرام نہیں
ننگ و ناموس سے کچھ اپنے تئیں کام نہیں

بے سروپائی سے عشاق کو خطرہ کیا ہے
اثرِ عشق ہے یہ گردشِ ایام نہیں

نشۂ چشم سے ہوں ساقیِ توحید کے مست
احتیاج اپنے تئیں ظرفِ مئے و جام نہیں

بوالہوس پانوں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بیچ
کوچۂ عشق ہے یہ رہگذرِ عام نہیں

بے نہایت ہے کہ پایا نہیں جسکا پایاں
جس جگہ پہنچئے آغاز ہے انجام نہیں

عالمِ عشق کی دنیا ہی نرالی دیکھی
سحر و شام وہاں یہ سحر و شام نہیں

زاہدا حال مرا دیکھ کے حیراں کیوں ہے
مشربِ کفر ہے یہ ملتِ اسلام نہیں

ساقیِ مست کے دیدار کا سرشار ہوں میں
اِس لئے دل کو تمنائے مئے و جام نہیں

عار کیا ہے تجھے لوگوں کی ملامت سے نیاز
عاشقوں میں تو اکیلا ہی تو بدنام نہیں

(حضرت شاہ نیاز بریلوی)

رواں آنکھوں سے ہے سیلابِ گلگوں


رواں آنکھوں سے ہے سیلابِ گلگوں
الٰہی چشم ہے یا چشمۂ خوں

جو شیریں تجکو دیکھے کوہکن ہو
اگر لیلیٰ ہو یہاں ہو جائے مجنوں

یہ دل وہ نیرِ خاکی ہے یارو
بلاگرداں ہے جس پر مہرِ گردوں

ترے آئینۂ رخ کا صفا دیکھ
تحیر میں ہے اشراقِ فلاطوں

علیِ مرتضیٰ ختم الرسل کے
نیاز ایسے ہیں جوں موسیٰ کے ہاروں

(حضرت شاہ نیاز بریلوی)

ایک کتاب ھو محبت کی



ایک کتاب ھو محبت کی جس کا نام تمنا ھو
باب ھو اُس کے اُتنے ھی جتنی میری عمر ھو
...جس کے ھر صفحے پہ رکھے خواہشوں کے پھول ھو
خواہشیں بھی ایسی جس میں ایک تمثیل ھو
اُس تمثیل میں سر تا پہ میری اپنی ھی تکمیل ھو
...میرے ساحر
محبت کی اُس کتاب میں
ایسا کچھ تم بھی لکھو جو کسی نے اب تک لکھا نہ ھو
ایک ایسا فسانہٍ دل جو میں نے اب تک پڑھا نہ ھو
سنو
میری جان
میں تو
ایک عجیب سی خواہش لکھ بیٹھی ھوں
اپنے رب سے تمہیں
صرف
ایک دن کے لیئے مانگ بیٹھی ھوں
میرے ساحر
میرا یقین کہتا ھے
تمھارے ساتھ ایک دن میں کئی جنموں کا سفر رھے گا

عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں


عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں تھا شاید
اس سے میرا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا شاید

خلقتِ شہر میں جس ہار کے چرچے ہیں بہت
میں وہ بازی کبھی کھیلا بھی نہیں تھا شاید

زیست کرنے کے سب آداب اُسے ازبر تھے
مجھ کو مرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا شاید

خاک اُڑاتے ہوئے بازاروں میں دیکھا سب نے
... میں کبھی گھر سے نکلا بھی نہیں تھا شاید

اُس کی آنکھوں میں بشارت تھی نئے خوابوں کی
میں اُسے دیکھ کے چونکا بھی نہیں تھا شاید

ایک بادل کہ میرے نام سے منسُوب ہوا
میرے صحرا میں تو برسا بھی نہیں تھا شاید

آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں


آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں

سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں

اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں

جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں

کہنا ہے وہی جس کی توقع ہے تجھے بھی
مت پوچھ مرے دل کی زباں ہیں تری آنکھیں

پلکوں کے جھروکوں سے سبو جھانک رہے ہیں
امید گہِ تشنہ لباں ہیں تری آنکھیں

یوں ہی تو نہیں امڈی چلی آتی ہیں غزلیں
پہلو میں مرے، زمزمہ خواں ہیں تری آنکھیں