القاب مجھے اس نے بھی خط میں نہیں لکھے
میں نے بھی اسے جان سے پیارا نہیں لکھا__!
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہےمطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہےچبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنیاے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہےشاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحالاے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہےہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگیرُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہےمیں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شباے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہےتوبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمتھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
یہ آنکھوں آنکھوں سے جو اداے خطاب ہےاے نازنیں یہ طرز سخن لا جواب ہےدنیا کے سب علوم ہیں جس میں رچے ہوےوہ مکتب شباب کی پہلی کتاب ہےمحشر بپا ہے آگ ہے ہر سو لگی ہوئیآتش کدہ ہے یا ترا عہد شباب ہےآے نہ خواب میں بھی کبھی مے کدے کے وہتیری اداس آنکھوں میں جتنی شراب ہےرسوائی شباب بھی رہتی ہے چپ کبھیسارے بدن میں بجتا ہوا اک رباب ہےکاٹی ہے اک شب جو عدم دلربا کے ساتھوہ رات عمر خضر کا لیب لباب ہےعبدالحمید عدم
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیںآدمی بے نظیر ہوتے ہیںتیری محفل میں بیٹھنے والےکتنے روشن ضمیر ہوتے ہیںپھول دامن میں چند رکھ لیجئےراستے میں فقیر ہوتے ہیںزندگی کے حسین ترکش میںکتنے بے رحم تیر ہوتے ہیںوہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیںسب سے پہلے اسیر ہوتے ہیںدیکھنے والا اک نہیں ملتاآنکھ والے کثیر ہوتے ہیںجن کو دولت حقیر لگتی ہےاُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیںجن کو قدرت نے حسن بخشا ہوقدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیںہے خوشی بھی عجیب شے لیکنغم بڑے دلپذیر ہوتے ہیںاے عدم احتیاط لوگوں سےلوگ منکر نکیر ہوتے ہیں---- عبدالحمید عدم
مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گاتری نظر کو، کئی دل نکال کر دوں گا!وہ چشمِ مست ابھی اس سے بھی نہیں واقفکہ میں بہک کے اچانک سوال کر دوں گا!میری فنا تو مسلّم ہے اس کا خوف ہی کیاتمہاری ذات کو میں لازوال کر دوں گاادھر سے گزریں اگر گردشیں زمانے کی!قسم خدا کی طبیعت بحال کر دوں گا!یقیں نہیں کہ یہ لغزش ہوئی ہو دانستہگماں نہ تھا کہ کبھی عرض حال کر دوں گامیری پسند کا معیار کچھ بھی ہو تاہمجسے چنوں گا اسے بے مثال کر دوں گاحقیر ہوگی میری پیشکش ذلیل نہیںجو چیز دوں گا تجھے دیکھ بھال کر دوں گامیرے سپرد نہ کر اپنے راز اے ہمدم!مجھے یہ ڈر ہے میں افشائے حال کر دوں گابہت سوال نہ کر مجھ پہ داورِ محشر!کہ میں بھی کوئی ادق سا سوال کر دوں گامیں اس لیے نہیں ملتا کسی مربّی سےجسے ملوں گا اسے پرملال کر دوں گازہے نصیب کہ کہتا ہے خود عدم ساقیتجھے میں اپنی محبت سے ڈال کر دوں گا(عبدالحمید عدم)
عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئیوقت کی بات وقت پر نہ ہوئیہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گیاتفاقاً اگر سحر نہ ہوئیجب سے آوارگی کو ترک کیازندگی لطف سے بسر نہ ہوئیاس خطا میں خلوص کیا ہوگاجو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئیمل گئی تھی دوائے مرگ مگرخضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئیکس قدر سادہ لوح تھی شیریںشعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئیکوہکن ڈوب مر کہیں جا کرتجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئیخواہشیں اتنی خوبصورت تھیںکوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئیدل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدمآنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئیسید عبدالحمید عدم
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہومیں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہوتم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مرّوت ہوتم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہوتم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہوکس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہوکس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہوداستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگیچاندنی میں ٹہل رہی ہوگیچاند نے تان لی ہے چادرِ ابراب وہ کپڑے بدل رہی ہوگیسو گئی ہوگی وہ شفق اندامسبز قندیل جل رہی ہوگیسرخ اور سبز وادیوںکی طرفوہ مرے ساتھ چل رہی ہوگیچڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پراب وہ کروٹ بدل رہی ہوگیپیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کروہ تنے سے پھسل رہی ہوگینیلگوں جھیل ناف تک پہنےصندلیں جسم مل رہی ہوگیہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدارکتنی ہی دیر شل رہی ہوگیجون ایلیا
سامنے ہو کے دلنشیں ہوتاتو بھی اے جانِ جاں یہیں ہوتاتم بھی اکثر کہیں نہیں ہوتےمیں بھی اکثر کہیں نہیں ہوتازندگی اپنی جستجو ہے تریتو جو ہے جان،تو کہیں ہوتادل سے بس ایک بات کہہ دیجیودل کا چاہا ہوا، نہیں ہوتاتو قیامت کا بے مروت ہےمیں ترا ہمنشیں،نہیں ہوتابات کرتے ہیں سنگِ در کی سبھیکوئی خونیں جبیں نہیں ہوتاکوئی بھی دل ربا و دل بر ہودل سے بڑھ کر حسیں نہیں ہوتاجون آغازِِ مے گساری میںنشہ ہوتا ہے،پھر نہیں ہوتاتم نہیں چاہتے مرا ہوناچلو اچھا ہے،میں نہیں ہوتا۔
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداعتو میری جانِ جاں سو مری جان الوداعمیں تیرے ساتھ بجھ نہ سکا حد گزر گئیاے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداعمیں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میںدامان الوداع! گریبان الوداعاِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھےسو اے کنارِ رود ، بیابان الوداعخود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میںسو الوداع، اے مرے سامان الوداعسہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کیاب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداعاے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگیکیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداعکِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سےانسان ہوں میں ، تو بھی ہے انسان الوداعنسبت کسی بھی شہ سے کسی شے کو یاں نہیںہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداعرشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیںامروہا الوداع سو اے بان الوداعاب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کااے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع
جب تری جان ہو گئی ہوگیجان حیران ہو گئی ہو گیشب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پروہ تو ہلکان ہو گئی ہو گیاس کی خاطر ہوا میں خوار بہتوہ مِری آن ہو گئی ہو گیہو کے دشوار زندگی اپنیاتنی آسان ہو گئی ہو گیبے گلہ ہوں میں اب بہت دن سےوہ پریشان ہو گئی ہو گیاک حویلی تھی دل محلے میںاب وہ ویران ہو گئی ہو گیاس کے کوچے میں آئی تھی شیریںاس کی دربان ہو گئی ہو گیکمسنی میں بہت شریر تھی وہاب تو شیطان ہو گئی ہو گی
اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاوں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مرِی بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دُھوپ کا حُرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھرآنکھیں
دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعدکتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعدکوئی پیغام نہ دلدارِنوا تیرے بعدخاک اڑاتی ہوئی گزری ہے صبا تیرے بعدلب پے اک حرفِ طلب تھا نہ رہا تیرے بعددل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعدعکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعدہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعددھوپ عارض کی نہ زلفوں کہ گھٹا تیرے بعدہجر کی رت ہے کہ محبس کی فضا تیرے بعدلیئے پھرتی ہے سرِ کوئے جفا تیرے بعدپرچمِ تار گریباں کو ہوا تیرے بعدپیرہن اپنا نہ سلامت نہ قبا تیرے بعدبس وہی ہم ہیں وہی صحرا کی ردا تیرے بعدنکہت و نے ہے نہ دستِ قضا تیرے بعدشاخِ جاں پر کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعددل نہ مہتاب سے اجلا نہ جلا تیرے بعدایک جگنو تھا چپ چاپ بجھا تیرے بعددرد سینے میں ہوا نوحا سرا تیرے بعددل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعدکونسے رنگوں کے بھنور کیسی حنا تیرے بعداپنا خون میری ہتھیلی پے سجا تیرے بعدتجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا برد ہواکون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعدایک ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعدورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعدایک قیامت کی خراشیں میرے چہرے پہ سجیںایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعداے فلکِ ناز میری خاک نشانی تیریمیں نے مٹی پہ تیرا نام لکھا تیرے بعدتو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹامیں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعدیہ الگ بات ہے کہ افشاں نہ ہوا تو ورنہمیں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعدملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئےکوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعدبجھے جاتے ہیں خد و خال مناظر افقپھیلتا جاتا ہے خواہش کا خلا تیرے بعدمیرے دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینامیں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعدسہہ لیا دل نے تیرے بعد ملامت کا عذابورنہ چبھتی ہے رگِ جاں میں ہوا تیرے بعدجانِ محسن میرا حاصل یہی مبہم سطریںشعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہِ زخمِ غمِ دیدہِ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعیت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !
محسن نقوی
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والےکیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والےاب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاںآو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاوں والےسنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھےکتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والےہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورجاب زمیں پر بھی اتر زرد خلاوں والےکیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھاکیسے موسم تھے وہ پر شور ہواوں والےتو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتامجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والےہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !خامشی کے سبھی تیور ہیں صداوں والےمحسن نقوی