Friday 31 May 2013

رند بخشے گئے قیامت میں

شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
ساقیا! ساقیا! شراب! شراب

آبِ حیواں کو مَے سے کیا نسبت!
پانی پانی ہے اور شراب شراب!

رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب

اک وہی مستِ با خبر نکلا
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب

مجھ سے وجہِ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب

جام گرنے لگا، تو بہکا شیخ
تھامنا ! تھامنا! کتاب! کتاب!

کب وہ آتا ہے سامنے کشفی
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب

Wednesday 29 May 2013

تم گدا گر کے گدا گر ہی رہے
تم نے کشکول تہِ جامہء بانات چھپا رکھا تھا
اور چہرے پر انا تھی
جو ہمیشہ کی طرح جھوٹی تھی
وہ یہ کہتی ہوئی لگتی تھی کہ ہم بھیک نہیں مانگیں گے
یعنی مر جائیں گے لیکن کسی منعم کے درِ زر پر دستک نہ دیں گے
یہ جو گرتے ہوئے سکوں کی کھنک چار طرف گونجی ہے
یہ شنیدہ ہے کئی برسوں سے
اور کشکول کا لہجہ بھی وہی ہے جو ہمیں ازبر ہے
لاکھ انکار کرو لاکھ بہانے ڈھونڈو
تم گداگر کے گداگر ہی رہے

جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں


جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں

ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں

پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں

پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں

پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں

شاید یہی‌ شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں

اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں‌ صدائیں

اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں

معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ!‌ نیا دَیر بنائیں

ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں

ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں

توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں

شعوُر

شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر مَیں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ رُوٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے

طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے

طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے

طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے
میرے ہمراہ چلے گا مرا سایہ کیسے

میری آنکھوں کی چکا چوند بتا سکتی ہے
جِس کو دیکھا ہی نہ جائے ، ا سے دیکھا کیسے

چاندنی اس سے لپٹ جائے ، ہوائیں چھیڑیں
کوئی رہ سکتا ہے د نیا میں اچھوتا کیسے

میں تو ا س وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے

یاد کے قصر ہیں ، ا مید کی قندیلیں ہیں
میں نے آباد کیے درد کے صحرا کیسے

اس لیے صرف خدا سے ہے تخاطب میرا
میرے جذبات کو سمجھے گا فرشتہ کیسے

ذہن میں نت نئے بت ڈھال کے یہ دیکھتا ہوں
بت کدے کو وہ بنا لیتا ہے کعبہ کیسے

اس کی قدرت نے میرا راستہ روکا ہوگا
پوچھ مجھ سے کہ قیامت ہوئی برپا کیسے

گر سمندر ہی سے دریاﺅں کا رزق آتا ہے
اس کے سینے میں ا تر جاتے ہیں دریا کیسے

ٹوٹتی رات نے سورج سے یہ سرگوشی کی
میں نہ ہوتی تو تیرا اندر برستا کیسے

ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو

ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں
ضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیں

جو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گے 
ہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیں

اجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹے
سرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیں

ہوائيں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنے
ارادے تند ہیں ہم شمعِ نو بھڑکانے آئے ہیں

وہ دیوانے جو ہمّت ہار کے بیٹھے تھے صدیوں سے
اب اپنی منجمد تقدیر سے ٹکرانے آئے ہیں

عروسِ زندگانی کا سوئمبر رچنے والا ہے 
نئے ارجن مشیت کی کماں لچکانے آئے ہیں

ہر کلی میں


ہر کلی میں پھول بننے کی نہاں ہے آرزو
دیکھ کر طوفاں کوکَھول اُٹھتا ہے قطرے کا لہو
 
ہر ستارہ چاند بننے کے لئے بیتاب ہے
چاند کا دل بھی تمنّاؤں سے لذّت یاب ہے
 
اُس کے سینے میں بھی ہے خورشید بننے کا خیال
اُس کی نظروں میں بھی ہے مہرِ درخشاں کا جمال
 
ہے خزف ریزے کے دل میں آئینہ بننے کا شوق
آئینے کو مہ وشوں کا نقشِ پا بننے کا شوق
 
ناچتے ہیں پھول اِس اُمید میں مستانہ وار
گوندھنے آئے گی مالن ایک دوشیزہ کا ہار
 
سر پٹخ کر جھاگ برساتے ہیں پیہم آبشار
چاہتے ہیں اپنی منزل سے ہوں یکدم ہمکنار
 
دن کے دل میں رات بننے کی تمنّا ہے نہاں
رات کو یہ شوق، کب ہوگی سحر جلوہ فشاں
 
تیرگی کو نور کا روئے حسیں محبوب ہے
نور کو ظلمات کی سنجیدگی مرغوب ہے
 
مفلسوں کو سلطنت کا شاہ بننے کی ہوس
شاہ کو کونین کا اللہ بننے کی ہوس
 
کمسنی کے دل میں رقصاں ہے تمنّائے شباب
اور بڑھاپے کی تبسّم پر جوانی کی نقاب
 
میں کہ اک شاعر ہوں بے پروائے قدرِ ننگ و نام
میرے سینےمیں بھی اک اُمید ہے، آتش بجام!
 
ایک شعلہ سا لرزتا ہے رگوں میں، مستقل
"جانے والے لوٹ آتے ہیں" یہی کہتا ہے دل
 
زندگی کو میں نے دیکھا ہے برافگندہ نقاب
زندگی پیہم خلش ہے، جاودانی اضطراب!

تجھے کھو کر بھی

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں 
حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں

میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں

وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

تہذیب



مجھے کل مرا ایک ساتھی ملا
جس نے یہ راز کھولا
کہ ۔۔ "اب جذبہ و شوق کی وحشتوں کے زمانے گئے!"

پھر وہ آہستہ آہستہ۔۔ چاروں طرف دیکھتا
مجھ سے کہنے لگا:
"اب بساطِ محبت لپیٹو
جہاں سے بھی مل جائے دولت۔۔ سمیٹو
غرض کچھ تو تہذیب سیکھو

(احمد ندیم قاسمی)

جُرم



زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پر بند ہیں
دیکھنا۔۔۔ ۔ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جُرم ہے
سوچنا۔۔۔ ۔ اپنے یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جُرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جُرم ہے
کیوں بھی کہنا جُرم ہے
کیسے بھی کہناجُرم ہے

سانس لینے کی آذادی تو میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس “کچھ اوربھی“ کا تذکرہ بھی جُرم ہے

زندگی کے نام پر بس اک عنائت چاہیے
مجھے ان جرائم کی اجازت چاہئیے
مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہییے

Saturday 18 May 2013

اُن کے اندازِ کرم




اُن کے اندازِ کرم، اُن پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت، وہ باتیں، وہ زمانہ دل کا

نہ سنا اُس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ہے مگر درد نہ جانا دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے، دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا

دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا

اُن کی محفل میں نصیر اُن کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا

جگنو، گُہر، چراغ،




جگنو، گُہر، چراغ، اجالے تو دے گیا
وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا

اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی
بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا

اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اُس کے گرد
میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا

شاید کہ فصلِ سنگ زنی کچھ قریب ہے
وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا

اہلِ طلب پہ اُس کے لیے فرض ہے دُعا
خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا

محسن اُسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر
دُنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا

ملیں ہم کبھی تو ایسے



ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جاؤں، تُو جواب بھول جائے

کبھی تُو جو پڑھنے بیٹھے، مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں، تُو کتاب بھول جائے

تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے

تُو کسی خیال میں ہو اور اُسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں تُو گلاب بھول جائے

تُو جو دیکھے میری جانب تو بچُوں میں اک گناہ سے
تجھے دیکھ لوں میں اتنا کہ شراب بھول جائے

مجھے غم تو دے رہا ہے، اور اُس پہ چاہتا ہے
میں حساب رکھ نہ پاؤں، وہ حساب بھول جائے

ﻋﺠﺐ ﺗﻘﺎﺿﮯ


ﻋﺠﺐ ﺗﻘﺎﺿﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﮯ


ﺑﮍﯼ ﮐﭩﮭﻦ ﯾﮧ ﻣﺴﺎﻓﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ


ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑِﭽﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ


ﺍُﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ



…ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﺠﺎ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ



ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﮟ ﺩﻻﺅﮞ



ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﺮ ﮨﮯ



ﺍُﺳﮯ ﺑﮭﻼﺅﮞ ﺗﻮ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ



ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻣﯿﮟ



ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ



ﺍُﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ


ﻣﯿﮟ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ۔

Monday 13 May 2013

اس نے کہا



اس نے کہا کہ دل میرا آزاد ھو گیا
ھر کوئی جال تھام کے صیاد ھو گیا

اس نے کہا کہ آ کسی جنگل میں جا بسیں
سارا ہی شہر دشت میں آباد ھو گیا

اس نے کہا کسی کو مدد چاہیے مری
ھر ایک شخص طالب امداد ھو گیا

اس نے کہا عدیم کوئی ایک غمزدہ
ھر ایک نے کہا کہ میں برباد ھو گیا

اس نے مذاق سے کہا فرعون ھے کوئی
سارا ہی شہر ہرمز و شداد ھو گیا

اس نے کہا کہ میرا ٹھکانا دلوں میں ھے
سب کو عدیم اس کا پتہ یاد ھو گیا.

Friday 10 May 2013

جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی


جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ اآتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ پیار اآتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی

پوچھ بیٹھا ہوں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری حالت کر دی

کیا ترا جسم تیرے حسن کی حدّت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
احمد ندیم قاسمی

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے


وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے۔

تمام عمر وفا کے گنہگار ر ہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے۔

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پُرانے لوگ، نئے آدمی سے جلتے تھے۔

ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ اک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے۔

دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا


دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں

یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آ‏ئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا 

اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے


تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے

لمس کے دم سے بصارت بھی، بصیرت بھی ملی
چُھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے نرے ریشم تھے

تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے

برف گرماتی رہی، دھوپ اماں دیتی رہی
دل کی نگری میں جو موسم تھے، ترے موسم تھے

مری پونجی مرے اپنے ہی لہو کی تھی کشید
زندگی بھر کی کمائی میرے اپنے غم تھے

آنسوؤں نے عجب انداز میں سیراب کیا
کہیں بھیگے ہوئے آنچل، کہیں باطن نم تھے

جن کے دامن کی ہوا میرے چراغوں پہ چلی
وہ کوئی اور کہاں تھے وہ مرے ہمدم تھے

میں نے پایا تھا بس اتنا ہی صداقت کا سُراغ
دُور تک پھیلتے خاکے تھے، مگر مبہم تھے

میں نے گرنے نہ دیا مر کے بھی معیارِ وقار
ڈوبتے وقت مرے ہاتھ مرے پرچم تھے

میں سرِ عرش بھی پہنچا تو سرِ فرش رہا
کائناتوں کے سب امکاں مرے اندر ضم تھے

عمر بھر خاک میں جو اشک ہوئے جذب ندیم
برگِ گل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے

احمد ندیم قاسمی

بھرم غزال کا جس طرح رَم کے ساتھ رہا



بھرم غزال کا جس طرح رَم کے ساتھ رہا
مرا ضمیر بھی میرے قلم کے ساتھ رہا

جُدائیوں کے سفر، سرخوشی میں گزرے ہیں
کہ اُس کا عکس، مری چشمِ نم کے ساتھ رہا

اِک آفتاب مرے سرَ سے ڈھل سکا نہ کبھی
کہ میرا سایہ میرے ہر قدم کے ساتھ رہا

نہ بھول پائے وطن کو جلا وطن جیسے
ہر آدمی کا تعلق ارم کے ساتھ رہا

دُعا کو ہاتھ اُٹھانے سے خوف آتا ہے
کہ جبرِ برق بھی ابرِ کرم کے ساتھ رہا

گواہ ہے مرا اندازِ جاں کنی کے ندیم
مرا غرورِ ہنر میرے دم کے ساتھ رہا

احمد ندیم قاسمی

ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں



ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں

اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں

ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں

وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں

کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں

وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں

پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اگلتے ہیں

ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔۔۔ 

(احمد ندیم قاسمی)

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں



ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں

وہ جو ابھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر ابھرا
اسی بچھڑے ہوئے سورج کی کرن مانگتے ہیں

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

ایسے غنچے بھی تو گل چیں کی قبا میں ہیں اسیر
بات کرنے کو جو اپنا ہی دہن مانگتے ہیں

فقط اس جرم میں کہلائے گنہ گار ، کہ ہم
بہر ناموس وطن ، جامہ تن مانگتے ہیں

ہم کو مطلوب ہے تکریم قد و گیسو کی
 
آپ کہتے ہیں کہ ہم دار و رسن مانگتے ہیں

لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہین نعرے ، لیکن
ہم تو اے وطن ، درد وطن مانگتے ہیں

کس کو قاتل میں کہوں



کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں
سب یہاں دوست ہی بیٹھے ہیں کسے کیا سمجھوں

وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر وہم یقیں ہوتا تھا
اب حقیقت نظر آئے تو اسے کیا سمجھوں

دل جو ٹوٹا تو کئی ہاتھ دعا کو اٹّھے
ایسے ماحول میں اب کس کو پرایا سمجھوں

ظلم یہ ھے کہ ھے یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ھے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں

(احمد ندیم قاسمی)

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار


ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار 

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں 
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن 
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا 
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا 
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر 
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے 

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی 
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے 
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید 
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے 
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر 
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے 

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں 
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر 
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر 
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے 
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے 

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے


سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا



درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا
اک کھنڈر مجھکو عطا کیا کرتا

جس اندھیرے میں ستارے نہ جلے
ایک مٹی کا دیا کیا کرتا

ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رکی
وہ تہی دست دعا کیا کرتا

ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو
اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا

اس کا ہونا ہے مرے ہونے سے
میں نہ ہوتا تو خدا کیا کرتا

تو نے کب مجھ کو دیے میرے حقوق
میں ترا فرض ادا کیا کرتا

ایک دھتکار تو جھولی میں پڑی
تو نہ ہوتا تو گدا کیا کرتا

جو نہ سمجھا کبھی مفہومِ وفا
اپنا وعدہ بھی وفا کیا کرتا

تشنہ لب آئے مگر ڈوب گئے
چشمہء آبِ بقا کیا کرتا

نکہت و رنگ کا پیاسا تھا ندیم
صرف اک لمسِ ہوا کیا کرتا

احمد ندیم قاسمی

مِری زندگی ترے ساتھ تھی



مِری زندگی ترے ساتھ تھی، مِری زندگی ترے ہات تھی
مری روح میں ترا نور تھا مِرے ہونٹ پر تری بات تھی

مرے قلب میں ترا عکس تھا، مری سانس میں تری باس تھی
ترے بس میں میرا شباب تھا، مری آس بھی ترے پاس تھی

ترے گیت گاتی تھی جب بھی میں مجھے چھیڑتی تھیں سہلیاں
مگر اُن پہ کھُل نہ سکیں کبھی مری زندگی کی پہلیاں

میں ترے جمال میں محو تھی میں ترے خیال میں مست تھی
مجھے کیا سمجھتیں وہ لڑکیاں کہ میں اپنے حال میں‌ مست تھی

تری شان میں‌ مری شان تھی ترا دبدبہ مرا ناز تھا
تری دلبری مری جان تھی تری عاشقی مرا راز تھا

مگر اب شباب گذر گیا تو ترا نیاز بھی مر گیا
مرے رُخ پہ جھُریاں دیکھ کر تو پلٹ کے جانے کدھر گیا

میں تری تلاش کروں مگر، مرا پستیوں میں مقام ہے
تو امیر ہے تو بلند ہے تو فلک پہ محوِ خرام ہے

اگر ایک پل کے لئے کبھی تو بلندیوں سے اُتر سکے
مِرے اُجڑے پجڑے دیار سے اگر ایک بار گذر سکے

تو مرے خلوص کا واسطہ، مری آرزو، مری آس، آ
مری بات سُن، مری بات سُن، مرے پاس آ، مرے پاس آ

نہ طلب کروں گی کرم ترا کوئی دوش بھی نہ دھروں گی میں
ترے پائے ناز پہ سر رگڑ کے بس ایک سجدہ کروں گی میں

(احمد ندیم قاسمی)