Saturday 24 August 2013

کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے​
جو یوں کِیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے​
نصیب پھر کوئی تقریبِ قرب ہو کہ نہ ہو​
جو دل میں ہوں، وہی باتیں کہا کرو اُس سے​
یہ اہلِ بزم تنک حوصلہ سہی پھر بھی​
ذرا فسانۂ دل ابتدا کرو اُس سے​
یہ کیا کہ تم ہی غمِ ہجر کے فسانے کہو​
کبھی تو اُس کے بہانے سنا کرو اُس سے​
فرازؔ ترکِ تعلق تو خیر کیا ہو گا!​
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اُس سے​

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں​
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں​
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے​
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں​
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے​
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں​
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے​
رو نہ پائیں تو گلے یار سےلگ جاتے ہیں​
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں​
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں​
داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ​
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں​



چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں
کہ دشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُوبُرو آئے
کہ اُن کے کاسۂ خالی میں
کچھ اپنا لہو آئے
کہ بُجھ جائے ہر اِک مشعل
تو ظلمت کُوبکُو آئے

کہ اہلِ صدق و ایماں ، بے سہارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

صف آرا ہوں کہ پہلے بھی
ستم ایجاد آئے تھے
نشاںِ ظلم اُٹھائے تھے
لُہو سے تربتر خنجر
قباؤں میں چُھپائے تھے
ہوس کی تُند آندھی نے
دیے کیا کیا بُجھائے تھے
مثالِ سنگِ خارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں 
صف آرا ہوں کہ پھر آئیں
تو قاتل سرنگوں جائیں
پشیمان و زبوں جائیں
گنوا کر اپنے جسم و جاں
بہا کر اپنا خوں جائیں
عدو سفاک ارادوں سے
اگر آئیں تو یوں جائیں

کہ شرمندہ دوبارہ ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی

نہ توقع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی

نہ تکلف نہ احتیاط نہ زعم
دوستی کی زبان سادہ تھی

جب بھی چاہا کہ گنگناؤں اسے
شاعری پیش پا فتادہ تھی

لعل سے لب چراغ سی آنکھیں
ناک ستواں جبیں کشادہ تھی

حدتِ جاں سے رنگ تانبا سا
ساغر افروز موجِ بادہ تھی

زلف کو ہمسری کا دعویٰ تھا
پھر بھی خوش قامتی زیادہ تھی

کچھ تو پیکر میں‌ تھی بلا کی تلاش
کچھ وہ کافر تنک لبادہ تھی

اپسرا تھی نہ حور تھی نہ پری
دلبری میں مگر زیادہ تھی

جتنی بے مہر، مہرباں اتنی
جتنی دشوار ، اتنی سادہ تھی

اک زمانہ جسے کہے قاتل
میرے شانے پہ سر نہادہ تھی

یہ غزل دین اُس غزال کی ہے
جس میں‌ہم سے وفا زیادہ تھی

وہ بھی کیا دن تھے جب فرازؔ اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی


کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہر ھے بستی اداس لوگوں کی 

نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا
رواں ھے بھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی

کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم
کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی

محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی

ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے ناسپاس لوگوں کی

کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے
کہ اس سے اور بھی بڑھتی ھے پیاس لوگوں کی


میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز‘
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی

بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا

کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
اُن ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا

جب بنامِ دل گواہی ہم سے مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا

جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے*
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا

آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا

ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

اسے اپنے فردا کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا

وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا

دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا

میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا
اُس کو بھی ہم تیرے کُوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اُس کا انداز سُخن سب سے جُدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مُکرنے والا
شام ہونے کو ہے اورآنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اِس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بِکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اِسی اُمّید پہ ہر شام بُجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سرِ بام اُبھرنے والا

Wednesday 14 August 2013



تعلق رکھ لیا باقی ، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں

محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں

اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

Saturday 3 August 2013


وہ سارے مسئلے حل کر گیا ہے
مجھے منظر سے اوجھل کر گیا ہے

وہ آیا تھا مری تکمیل کرنے
مجھے وہ نامکمل کر گیا ہے

مرا احساس میری آبرو تھا
مرے احساس کو شل کر گیا ہے

وہ میری روح میں اترا ہے ایسے
مری سوچیں مقفل کر گیا ہے

مری آنکھیں کہ صحرا بن گئی تھیں
مری آنکھوں کو جل تھل کر گیا ہے

تعلق کا یہ کیسا سلسلہ تھا
کہ ٹوٹا ہے تو گھائل کر گیا ہے

وہ جب تک ساتھ تھا تو زندگی تھی
وہ بچھڑا ہے تو پاگل کر گیا ہے