Thursday 30 January 2014



کام آسکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اِک بے وفا کو بُھول نہ جائیں تو کیا کریں

مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دُعائیں تو کیا کریں

اِک دن کی بات ہو تو اُسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

ظُلمت بدوش ہے مری دُنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلیں نہ چُرائیں تو کیا کریں

شب بھر تو اُن کی یاد ميں تارے گِنا کئے
تارے سے دن میں بھی نظر آئیں تو کیا کریں

عہدِ طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مُسکرا کے بُھول نہ جائیں تو کیا کریں

اب جی میں ہے کہ اُن کو بُھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

وعدے کے اعتبار میں تسکینِ دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں

ترکِ وفا بھی جُرمِ محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں