Tuesday 29 January 2013


بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں

نہیں نہیں! یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے! آ کے چلے بھی گئے!ملے بھی نہیں!

یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں

ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سِلے بھی نہیں

خفا اگرچہ ہمیشہ ہُوئے مگر اب
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گِلے بھی نہیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment