Thursday 30 January 2014



کام آسکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اِک بے وفا کو بُھول نہ جائیں تو کیا کریں

مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دُعائیں تو کیا کریں

اِک دن کی بات ہو تو اُسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

ظُلمت بدوش ہے مری دُنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلیں نہ چُرائیں تو کیا کریں

شب بھر تو اُن کی یاد ميں تارے گِنا کئے
تارے سے دن میں بھی نظر آئیں تو کیا کریں

عہدِ طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مُسکرا کے بُھول نہ جائیں تو کیا کریں

اب جی میں ہے کہ اُن کو بُھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

وعدے کے اعتبار میں تسکینِ دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں

ترکِ وفا بھی جُرمِ محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں

Saturday 24 August 2013

کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے​
جو یوں کِیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے​
نصیب پھر کوئی تقریبِ قرب ہو کہ نہ ہو​
جو دل میں ہوں، وہی باتیں کہا کرو اُس سے​
یہ اہلِ بزم تنک حوصلہ سہی پھر بھی​
ذرا فسانۂ دل ابتدا کرو اُس سے​
یہ کیا کہ تم ہی غمِ ہجر کے فسانے کہو​
کبھی تو اُس کے بہانے سنا کرو اُس سے​
فرازؔ ترکِ تعلق تو خیر کیا ہو گا!​
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اُس سے​

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں​
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں​
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے​
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں​
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے​
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں​
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے​
رو نہ پائیں تو گلے یار سےلگ جاتے ہیں​
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں​
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں​
داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ​
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں​



چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں
کہ دشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُوبُرو آئے
کہ اُن کے کاسۂ خالی میں
کچھ اپنا لہو آئے
کہ بُجھ جائے ہر اِک مشعل
تو ظلمت کُوبکُو آئے

کہ اہلِ صدق و ایماں ، بے سہارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

صف آرا ہوں کہ پہلے بھی
ستم ایجاد آئے تھے
نشاںِ ظلم اُٹھائے تھے
لُہو سے تربتر خنجر
قباؤں میں چُھپائے تھے
ہوس کی تُند آندھی نے
دیے کیا کیا بُجھائے تھے
مثالِ سنگِ خارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں 
صف آرا ہوں کہ پھر آئیں
تو قاتل سرنگوں جائیں
پشیمان و زبوں جائیں
گنوا کر اپنے جسم و جاں
بہا کر اپنا خوں جائیں
عدو سفاک ارادوں سے
اگر آئیں تو یوں جائیں

کہ شرمندہ دوبارہ ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی

نہ توقع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی

نہ تکلف نہ احتیاط نہ زعم
دوستی کی زبان سادہ تھی

جب بھی چاہا کہ گنگناؤں اسے
شاعری پیش پا فتادہ تھی

لعل سے لب چراغ سی آنکھیں
ناک ستواں جبیں کشادہ تھی

حدتِ جاں سے رنگ تانبا سا
ساغر افروز موجِ بادہ تھی

زلف کو ہمسری کا دعویٰ تھا
پھر بھی خوش قامتی زیادہ تھی

کچھ تو پیکر میں‌ تھی بلا کی تلاش
کچھ وہ کافر تنک لبادہ تھی

اپسرا تھی نہ حور تھی نہ پری
دلبری میں مگر زیادہ تھی

جتنی بے مہر، مہرباں اتنی
جتنی دشوار ، اتنی سادہ تھی

اک زمانہ جسے کہے قاتل
میرے شانے پہ سر نہادہ تھی

یہ غزل دین اُس غزال کی ہے
جس میں‌ہم سے وفا زیادہ تھی

وہ بھی کیا دن تھے جب فرازؔ اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی


کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہر ھے بستی اداس لوگوں کی 

نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا
رواں ھے بھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی

کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم
کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی

محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی

ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے ناسپاس لوگوں کی

کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے
کہ اس سے اور بھی بڑھتی ھے پیاس لوگوں کی


میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز‘
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی

بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا

کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
اُن ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا

جب بنامِ دل گواہی ہم سے مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا

جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے*
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا

آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا

ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا