Saturday 24 August 2013


بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا

کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
اُن ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا

جب بنامِ دل گواہی ہم سے مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا

جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے*
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا

آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا

ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

No comments:

Post a Comment